گزشتہ روز قومی اسمبلی میں حکومت نے بلوچستان کے مسائل کے حوالے سے ٹروتھ اینڈ ری کنسلی ایشن کمیشن بنانے کی تجویز پیش کی ۔ زیارت، خاران اور مستونگ کے واقعات کی تحقیقات کیلئے اعلیٰ سطح کا جوڈیشل انکوائری کمیشن بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیاکہ بلوچستان کے حالات کیوں تبدیل نہیں ہو رہے، وفاقی وزراء خواجہ آصف اور شیری رحمان نے کہا کہ گیارہ ‘ 12سال قبل سوات میں جو سلسلہ شروع ہوا وہ آج بھی جاری ہے۔ان واقعات کیخلاف سوات کے عوام بازاروں میں احتجاج کیلئے نکل آئے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ یہ ہماری ریاست کا مسئلہ ہے ،کسی فرد واحد کا نہیں، سر جوڑ کر بیٹھنا چاہئے اوراس کا حل نکالنا چاہئے۔ انہوں نے سینیٹر شیری رحمان کی ٹروتھ اینڈ ری کنسیلی ایشن کمیشن بنانے کی تجویز کی بھی حمایت کی۔
بلوچستان میں کئی دہائیوں سے بغاوت جاری ہے۔ اسکی سب سے بڑی وجہ بلوچ عوام کا احساس محرومی ہے۔ ہر دور حکومت میں بلوچستان کو نظرانداز کیا جاتا رہا ہے ‘ نہ کبھی وہاں ترقیاتی کام کئے گئے اور نہ بلوچ عوام کے بنیادی حقوق اور انکے مسائل حل کرنے پر توجہ دی گئی۔ہر حکومت نے بلندبانگ دعوے تو کئے لیکن اپنے ان دعوئوں کو عملی قالب میں ڈھالنے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے شدومد کے ساتھ آغازِ حقوقِ بلوچستان پیکیج کا اعلان کیا اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ بلوچ قوم کی محرومیوں کو دور کرکے انہیں قومی دھارے میں لایا جائیگا۔ بدقسمتی سے اس پیکیج پر آج تک عملدرآمد نہ ہو سکا۔ البتہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بلوچستان کے نوجوانوں کوپاک فوج میں بھرتی کرنے کے خصوصی اقدامات کئے تاکہ انکی محرومیوں کا کچھ ازالہ کیا جاسکے۔ انکے اس اقدام سے بلوچ عوام میں پایا جانیوالا غم و غصہ کم ہوتا نظر آیا۔اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ بلوچستان کی محرومیوں کا جہاں وفاق ذمہ دار ہے‘ وہیں بلوچستان کی صوبائی قیادت بھی قصوروار نظر آتی ہے۔ بلوچستان کو این ایف سی سے اسکے حصہ کی رقم تواتر سے ملتی رہی ہے جو مبینہ کرپشن کی نذر ہوتی رہی۔اگر اس رقم کو بلوچ عوام کی فلاح و بہبود پر لگایا جاتا تو آج ان حالات کی نوبت نہ آتی۔ جب تک حکومتی سطح پر بلوچستان کی ترقی کے عملی اقدامات نہیں کئے جاتے اور بلوچ عوام کی محرومیوں کو سیاسی طریقے سے دور نہیں کیا جاتا‘ بلوچ عوام میں پائے جانے والے انتشار اور اضطراب کو دور نہیں کیا جا سکتا اور نہ وہاں سرگرم عسکری تنظیموں کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کا خدشہ درست نظر آتا ہے کہ عسکریت پسندی سے وفاق کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں اس لئے اداروں کو فوری طور پر نمٹنا ہوگا۔انکی اور شیری رحمان کی طرف سے بلوچستان کے مسئلہ پر ٹروتھ اینڈ ری کنسلی ایشن کمیٹی بنانے کا درست مشورہ دیا گیا ہے جو فوری عملدرآمد کا متقاضی ہے۔ اس سے بلوچستان کے حقائق جاننے میں مدد ملے گی جس کی روشنی میں بلوچستان کے مسائل حل کئے جا سکیں گے ،بلوچ عوام کی محرومیوں کا ازالہ ہو سکے گا اور انہیں قومی دھارے میں لانے کی راہ ہموار ہو گی۔ ضروری ہے کہ بلوچستان کی قیادت کے ساتھ بیٹھ کر مسئلہ کا حل تلاش کیا جائے اور وہاں ترقیاتی منصوبے شروع کئے جائیں تاکہ وہاں جاری بغاوت کو کچلا جا سکے جس کی سرپرستی بھارت کررہا ہے۔