وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ امریکہ کو بتا دیا ہے کہ پاکستان روس سے تیل خرید سکتا ہے تو ہمارا بھی حق بنتا ہے کہ لیں اور ہمیں ا س سے روکنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ اگر بھارت سے کم قیمت پر ہمیں تیل ملا تو ضرور لیں گے۔ اچھی خبر کی امید ہے لیکن وہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس سے پہلے اعلان نہیں کر سکتے۔ مہنگائی نہ تو 6 ماہ میں آتی ہے اور نہ ہی جاتی ہے۔ ملک کی ترقی کے لیے ہمیں چارٹر آف اکانومی پر متفق ہونا ہو گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے آئی کیپ کی کانفرنس سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ معیشت کے حوالے سے فیصلے کرنے میں آزاد ہوں اور آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کیا اس پر عمل کریں گے۔ ڈالر میں مصنوعی اضافہ ہے۔ آئندہ چند روز میں کم ہو جائے گا۔ ماضی میں بھی معیشت کو درپیش چیلنج کا مقابلہ کیا، اب بھی کریں گے۔
گزشتہ صدی کی ساٹھ کی دہائی میں پاکستان کی معیشت دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں رول ماڈل کا درجہ رکھتی تھی۔پاکستان کے پہلے اور دوسرے پانچ سالہ منصوبوں کی وجہ سے ملک تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا ۔ لیکن اس کے بعد ملکی معیشت مدو جذر کا شکار رہی ۔ صنعتوں کو قومیانے کے بعدقومی معیشت کو شدید دھچکا لگا۔ سرمایہ کاروں نے پیسہ بیرون ملک منتقل کرنا شروع کردیا ۔ 1988 ء میں البتہ معیشت پر زوال کے سائے بڑھناشروع ہوگئے ۔ بجلی پیدا کرنے والے اداروں سے ایسا معاہد ہ کیا گیا جس کی مہذب دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔اس کے نتیجے میں بجلی کے ریٹس بڑھتے چلے گئے ہیں اور گردشی قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہونے سے قرضوں کا حجم بھی بڑھنے لگا ۔ درآمدات روز بروز بڑھتی چلی گئیں جب کہ برآمدات میں اضافہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا اور یوں تجارتی خسارہ بھی بڑھتا چلا گیا ۔ پاکستان کی معیشت اس وقت اگر شدید مشکلات میں ہے تو اس کی بظاہر وجہ تو کرونا کی عالمی وبائ، یوکرائن اور روس کی جنگ اور موجودہ تباہ کن سیلاب ہی ہے لیکن عشروں سے ملک پر برسرِاقتدار رہنے والی حکومتوں کی غیر حقیقت پسندانہ پالیسیاں بھی اس صورت حال کی اہم وجوہ میں شامل ہیں۔ جن کے نتیجے میں ملک قرضوں کے دلدل میں دھنستا چلا گیا ۔ آبادی میں غیر معمولی اضافہ بھی ہمارے وسائل ہڑپ کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ کسی بھی حکومت نے ان مسائل کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی جو ملکی معیشت کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ طویل مدتی منصوبے کسی بھی حکمران کی ترجیح نہیں تھی ہر حکومت نے ڈ نگ ٹپائو پالیسیاں اختیار کیں۔ اس میں کسی ایک جماعت کو موردِالزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ یہ انہی پالیسیوں ہی کا منطقی نتیجہ ہے کہ ملک میں امیر طبقہ امیر تر ہوتا چلا گیا اور غریب غربت کی آخری سطح تک پہنچتے چلے گئے۔ یوں ہماری ناقص اور غیر حقیقت پسندانہ معاشی پالیسیوں کے باعث ملک میں دو طبقات وجود میں آ گئے ایک مراعات یافتہ طبقہ اور دوسرا محروم، مقہور اور مظلوم طبقہ جبکہ درمیانی (یعنی سفید پوش طبقہ) معدوم ہوتا چلا گیا۔ طبقاتی کشمکش نے دو انتہائوں کو جنم دیا اور پھر معاشرے میں انتہا پسندی فروغ پاتی رہی۔ آج صورت حال یہ ہے کہ سماج فکری انتشار اوربدامنی کا شکار ہو چکا ہے۔ لوٹ مار، چھینا جھپٹی، رشوت، کرپشن، بدعنوانی ایسی اخلاقی برائیاں ہمارے کردار و عمل میں سرایت کر چکی ہیں۔ ہماری اشرافیہ کے اللّوں تللّوں کی وجہ سے درآمدات میں غیر معمولی اضافہ ہو چکا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں برآمدات میں مسلسل کمی واقع ہوتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے رواں مالی سال کا وفاقی بجٹ پیش کرتے ہوئے درآمدات میں معتدبہ کمی کا اعلان کیا اور اشیائے تعیش سمیت بہت سی غیر ضروری اشیاء کی درآمد پر پابندی عائد کر دی تھی اور اس اقدام پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس سے ہمارے زرِمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل ہونے والی کمی رک جائے گی لیکن تھوڑے ہی عرصہ بعد حکومت نے اپنے اس فیصلے کو واپس لے لیا اور درآمدات پر لگائی جانے والی پابندی اٹھا لی۔ یوں ڈالرز کی صورت میں زرِمبادلہ کے ذخائر ایک بار پھر کم ہونا شروع ہو گئے۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں (آئی پی پیز) سے جو ملک دشمن معاہدہ کیا گیا تھا وہ بھی ابھی تک برقرار رکھا گیا ۔یہ صورتِ حال ملکی معیشت کے لیے بے حد نقصان دہ ہے۔ ابھی تک حکومت کی طرف سے معیشت کی بہتری کے سلسلے میں کوئی قابلِ ذکر منصوبہ سامنے نہیں آیا۔ اب وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے یہ خوش کن خبر دی ہے کہ روس سے بھارت کے مقابلے میں سستا تیل خریدا جائے گا۔ اگر تو ایسی ہی پیشکش ہے تو پھر حکومت کو ذرا برابر بھی دیر نہیں کرنی چاہیے اور روس کے ساتھ سستے نرخوں پر تیل کی خریداری کا بلاتاخیر معاہدہ کرنا چاہئے ۔ اسی طرح ایران سے کم ریٹس پر گیس خریدنے کا اہتمام بھی فی الفور کیا جائے۔ ملکی مفاد میں کوئی بھی فیصلہ کرنے یا قدم اٹھانے کے لیے کسی سے ڈکٹیشن لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ پٹرول اور بجلی کے ریٹس اس وقت عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکے ہیں جن پر عوامی ردعمل حالیہ ضمنی الیکشن کے نتائج کی صورت میں سامنے بھی آچکا ہے۔ وفاقی حکومت کو دیوار پر لکھا بھی پڑھنا چاہیے کہ یہ اس کی آئینی، قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ یہ حکومت اپنے اتحادیوں کے تعاون اور حمایت سے اقتدار میں اس لیے آئی تھی کہ اس نے مہنگائی پر قابو پانے اور عوام کو ریلیف دینے کا وعدہ کر رکھا ہے لیکن ابھی تک وہ اپنے اس اہم اور بنیادی وعدے کو پورا نہیں کر سکی۔ وزیر خزانہ نے جس میثاقِ معیشت کی بات کی ہے وہ نئی نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی اس حوالے سے اہلِ سیاست کی طرف سے بیانات سامنے آ چکے ہیں۔ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جو اہلِ سیاست سے سنجیدگی کا تقاضا کرتا ہے۔ ملک اور قوم کا مفاد اسی میں ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنی جماعتی اور گروہی سیاست اور مفادات کو تج کر خالص قومی مفاد میں قومی ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کریں اور میثاقِ معیشت پر متفق ہو جائیں تاکہ ملکی معیشت موجودہ گرداب سے نکل سکے اور عوام کو بھی ریلیف میسر آ سکے۔
میثاقِ معیشت روس سے سستے تیل کی خریداری، تاخیر مت کریں
Oct 21, 2022