بلند مقام، بلند قامت ……
لیاقت بلوچ
مفسرِقرآن، عظیم مفکر و رہنما مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے26 ستمبر 1979ء کو انتقال کی خبر آئی تو عالمِ اسلام میں اسلامی تحریکوں کے علم و تحقیق کے مراکز سے اکابرین کے تعزیتی پیغامات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ نیزدنیا بھر سے عالمی اسلامی تحریکوں کے قائدین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ میں اْن دِنوں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا ناظمِ اعلیٰ اور پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کا صدر تھا۔ جماعتِ اسلامی کے ذمہ داران ساتھ مہمانوں کی دیکھ بھال، جنازے اور تدفین کے معاملات میںاسلامی جمعیت طلبہ کا بھرپور کردار رہا۔ بیرون ملک سے مہمانوںکے پروٹوکول کیلئے ذمہ داری تفویض تھی، لہٰذاعلامہ یوسف القرضاوی کی آمد پر لاہور ایئرپورٹ پر ہم نے ان کا خصوصی استقبال کیا۔آپ28 ستمبر 1979ء کو مولانا مودودی کے جنازہ میں شرکت کے لیے تشریف لائے۔ ہوٹل میں کچھ دیر قیام کے بعد جماعتِ اسلامی کے مرکز منصورہ تشریف لائے لیکن بے چین وبے قرار تھے کہ کسی طرح فوراً اپنے استاد، امام، رہنما مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی رہائش گاہ اِچھرہ پہنچ جاؤں اور مرشد کا دیدار کروں۔43 سال پہلے کے یہ یادگار لمحات تھے۔ اْن کی اِس محبت کا انعام اللہ تعالیٰ نے انہیں کیا خوب دیا کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی نمازِ جنازہ قذافی اسٹیڈیم میں تیار تھی۔ شنید تھی کہ امامِ کعبہ امام محمد بن سبّیل آرہے ہیںاور وہ نمازجنازہ پڑھائیں گے۔ لیکن اْن کے نہ آسکنے پر نماز جنازہ امامت کی سعادت علامہ یوسف القرضاوی کو نصیب ہوئی۔ نمازِ جنازہ میں لاکھوں لوگ شریک تھے، اِس موقع پر علامہ یوسف القرضاوی نے مختصر خطاب بھی کیا۔ خطاب کیا تھا خطابت کی شیرینی، قادر الکلامی، جادو بیانی اورمولانا مودودی کی خدمات کے اعتراف اوراْن کے ساتھ اپنی والہانہ نیازمندی کے اظہار نے سماں باندھ دیا۔ نمازِ جنازہ میں اکابر علماء ، دینی سیاسی جماعتوں کے رہنما، حکومتی اور سول سوسائٹی کے لوگ سبھی بیک زبان کہہ رہے تھے کہ شیخ قرضاوی نے مولانا مودودی کے جنازہ کی امامت کا حق ادا کردیا۔
موت العالِم موت العالَم، علامہ یوسف القرضاوی سے قطر، سعودی عرب، رابطہ عالمِ اسلامی، شباب العالمی، برطانیہ اور عرب امارات کی کانفرنسوں میں باربار ملاقات ہوئی، زیارت اور نشستوں کا موقع ملتا۔ میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، مولانا خلیل حامدی، عبدالغفارعزیز کے ہمراہ ہر بارکی ملاقات کچھ دے جاتی ۔ علامہ یوسف القرضاوی جماعتِ اسلامی اور مولانا مودودی کی فکر، تنظیم و تربیت، نصب العین اور طریقہ کار کے قائل اور شیدائی تھے۔ عالمِ اسلام اِس سے مستفید ہوتا،ہر کانفرنس،ہر نشست،ہر ملاقات میں علامہ یوسف القرضاوی کا پاکستانی عوام کے لئے یہ جذبہ محسوس ہوتا۔آپ نے ساری زندگی اعلائے کلمۃ اللہ، غلبہ حق، قرآن و سنت کی دعوت کو عام کرنے، خصوصاً سیکولر ازم، اباحیت، مغربی تہذیب اور باطل نظام کی بیخ کنی کی جدوجہد جاری رکھی۔
علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی ولادت 9 ستمبر 1926ء کو مصر کے محافظہ غربیہ کے مرکز المحلہ الکبری کے ایک گاؤں ’’صفط تراب‘‘ میں ہوئی۔ابھی دو سال کے تھے کہ ان کے والدِگرامی وفات پاگئے۔ اس کے بعد ان کی کفالت و پرورش کی ذمہ داری ان کے چچا نے انجام دی۔ دورِ جوانی سے ہی وہ شیخ حسن البناء شہید کی شخصیت اور دعوت سے متاثر تھے اور یہی وجہ ہے کہ امام حسن البناء سے والہانہ لگاؤ اور محبت رکھتے تھے۔اس راہ پْرخار میں قید و بند اور ایذا و تعذیب کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، لیکن ان کے پائے استقامت میں ذر ابھی لغزش اور لرزش نہیں آئی اور وہ مجسم استقامت بنے رہے۔ اخوان المسلمون سے وابستگی کی بناء پر وہ پہلی بار 1949ء کے مصری کے شاہی دور میں 23 برس کی عمر میں گرفتار ہوئے۔ پھر جمال عبدالناصر کے دورِ سیاہ میں بھی 3 بار جیل جانا پڑا۔1961ء میں وہ قطر چلے گئے جہاں کچھ عرصہ بعد انہیں قطری شہریت سے بھی نوازا گیا۔ 1977ء میں قطر یونیورسٹی سے وابستہ ہوگئے اور اپنی علمی خدمات سے نام پیدا کیا۔ اخوان المسلمون کی قیادت نے انہیں مختلف مناصب، یہاں تک کہ مرشدِ عام (سب سے اونچے منصب) کی پیشکش بھی کی لیکن انہوں نے یہ سب قبول کرنے سے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ وہ اپنی صلاحیتوں سے اچھی طرح واقف ہیں اس لیے خود کو ان مناصب کا اہل نہیں سمجھتے۔
مولانا ابوالحسن علی ندوی کی کوششوں سے ایک زمانے میں ندوۃ العلماء میں عالمِ عرب کے بڑے بڑے شیوخ بطور ویزیٹنگ پروفیسرز خدمات سرانجام دیتے تھے ۔ ڈاکٹر یوسف القرضاوی بھی ان اصحابِ علم و فکر میں شامل تھے۔ ایک مرتبہ دورانِ لیکچر عالمِ اسلام کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے دینی تنظیموں اور شخصیات کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے دوران اخوان المسلمون پر کیے گئے بدترین،تشدد انتہائی وحشیانہ اور گھناؤنے بلکہ انسانیت سوزمظالم کا ذکر آنے پرجوشِ خطابت میں آب دیدہ ہوگئے اور اْن کی آواز بھرا گئی۔
ڈاکٹر القرضاوی مظلوم فلسطینیوں کی جدوجہد کے بہت بڑے حامی تھے۔ انہوں نے کھلے الفاظ میں فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی بربریت اور فلسطین پر ناجائز صیہونی قبضہ کی ہمیشہ مذمت کی۔ انہوں نے غاصب اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف فلسطینی عوام کی جدوجہد کی بھرپور انداز میں حمایت کی اور اسے جائز قرار دیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے اسرائیل کے خلاف خودکش حملوں کو بھی جائز قرار دیا۔ اْن کا یہ جواز صرف سرزمینِ فلسطین کی حد تک تھا، جہاں اہلِ فلسطین کے لیے اپنے دفاع کا دوسرا کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔
ڈاکٹر القرضاوی کی تصانیف کی تعداد 200 تک ہے۔ ان میں سے بہت سی کتب کا ترجمہ دنیا کی مختلف زبانوں میں ہوچکا ہے۔ ان کی ابتدائی تصانیف میں الحلال والحرام فی الاسلام اور فقہ الزکاۃ(اردو ترجمہ اسلام میں حلال و حرام ،جناب شمس پیر زادہ،اسلامک پبلی کیشنز لاہور) کو غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔ علاوہ ازیں ان کی دیگر اہم تصنیفات میں فقہ الطہارہ، فقہ الصلاۃ، فقہ الجہاد، من فقہ الدولۃ فی الاسلام، فی فقہ الاقلیات المسلم، العباد فی الاسلام، کیف نتعامل مع القرآن العظیم، کیف نتعامل مع السن النبویؐ، مشکل الفقر وکیف عالجہا الاسلام، البصر فی الاسلام (اْردو ترجمہ مولانا محمد جرجیس کریمی)، ظاہر الغلو فی التکفیر، القدس قضی کل مسلم، السیاسۃ الشرعی فی ضو نصوص الشریعۃ، الصحوۃ الاسلامیۃ من المراھقۃ الی الرشد، الوقت فی حیاۃ المسلم (اردو ترجمہ ’’وقت کی اہمیت‘‘، از مولانا عبدالحلیم فلاحی، ناشر مکتبہ اسلامی پبلشرز ،نئی دہلی) اور التربیۃ الاسلامیۃ و مدرسۃ حسن البنائ(اردو ترجمہ ’’اخوان المسلمون کا تربیتی نظام‘‘، از ڈاکٹر عبید اللہ فہد فلاحی ادارہ مطبوعات طلبہ ، لاہور) قابلِ ذکر ہیں۔ آپ نے عصری مسائل پربہت بڑی تعداد میں فتاویٰ بھی جاری کیے، جنہیں علمی حلقوں میں خاصی پذیرائی حاصل ہوئی۔ اْن کا مجموعہ فتاویٰ ’’فتاویٰ معاصر‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ ان میں سے کچھ منتخب فتاویٰ کا اْردو ترجمہ سید زاہد اصغر فلاحی نے کیا، جوکہ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے دو حصوں میں شائع ہوااور لاہور سے البدر پبلی کیشنزنے اسے شائع کیا۔علاوہ ازیں سودی بنکاری نظام سے متعلق علامہ القرضاوی کے ایک طویل انٹرویو کا اْردو ترجمہ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کے رشحاتِ قلم سے سہ ماہی ’’تحقیقاتِ اسلامی‘‘ علی گڑھ (اکتوبر۔دسمبر 1989ء ) میں ’’بنک کا سود‘‘ کے عنوان شائع ہوا ۔ مذکورہ انٹرویو میں ڈاکٹر القرضاوی نے دلائل کیساتھ ثابت کیا کہ انٹرسٹ (سود) کی تمام صورتیں بشمول بنک انٹرسٹ مطلقاً حرام ہے اور اس پر تمام علماء کا اجماع ہے۔
1994ء میں علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی کو علومِ اسلامیہ و دینیہ کے حوالے سے اْن کی شاندار خدمات کے اعتراف کے طور پر سعودی عرب کے مؤقر اعزاز’’شاہ فیصل ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔ متحدہ عرب امارات حکومت کی جانب سے بھی انہیں وہاں کا سب سے بڑا ایوارڈ تفویض کیا گیا۔ بد قسمتی سے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اسرائیل نوازی کے باعث ان ممالک کے حکمرانوں کی تیار کردہ دہشت گردوں کی فہرست میں علامہ القرضاوی کا نام بھی شامل کردیاگیا۔علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی اس دارِ فانی سے کْوچ فرماکر اپنے خالقِ حقیقی کے حضور پیش ہوگئے ہیں۔ اْن کی ذات، اْن کے افکارو تعلیمات کے حوالے سے بہت کچھ لکھا اور تجزیہ کیا جائے گا۔ اِن شاء اللہ! مرحوم کا مشن جاری رہے گا۔
علامہ یوسف القرضاوی
Oct 21, 2022