گزشتہ دنوں جدہ کی متحرک اور شاندار پروگرام کی منتظم نوشین وسیم جو سعودی انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کی مشیر بھی ہیںنے اپنے ©©”نوشین آرٹ اینڈ کلچرل کی جانب سے پاکستان کی مشہو ر گلوکارہ ملکہ ترنم نور جہاں کوخراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ایک شاندار پروگرام کا اہتمام کیا ، ہندوستا ن ، پاکستان اور اردو، پنجابی سے واقف افراد کے اہل خانہ نے بھرپور تعداد میں شرکت کی اور نوجوان گلوکار جو میڈیم نورجہاں کے گیتوںپر دسترس تو نہیں رکھتے تھے مگر بہت خوب انداز میں ملکہ ترنم کے مشہور گیت جو صداءزندہ رہیں گے پیش کئے ۔ اس شام کو خوبصورت بنانے کیلئے نوشین وسیم اور انکی ٹیم نے خوب محنت کی ، تقریب میں اکثر خواتین بشمول نوشین وسیم، سعودی صحافی سمیرہ عزیز نورجہاں کے انداز میں ساڑھی زیب تین کئے ہوئے تھیں، تقریب میں پان،گجرے کا اہتمام تھا۔ اتنی خوبصورت تقریب اگر کسی بڑی جگہ بھی ہوتی تو مزید سامعین ہوتے ، مگر جگہ کی مناسبت سے ہال مکمل بھرا ہوا تھا ۔ 74 سال کی عمر میں جنوبی ایشیا کی ملکہ راگ کو طویل علالت کے بعد ہم سب کو چھوڑے ہوئے 22 سال ہو گئے ہیں۔ ریشمی ساڑھیوں، آنکھوں کے نمایاں میک اپ، منفرد بالوں کے انداز اور چمکتے ہیروں کے لیے مشہورنور جہاں کی سریلی آواز نے لاکھوں لوگوں کا دل جیت لیا اور آواز کے اشاروں اور جذباتی اظہار کا ایک بے مثال امتزاج پیدا کیا، جس نے جذبات کی بہت حقیقی انداز میں ترجمانی کی۔تقریب میں شرکت کرنے پر نوشین وسیم نے آرٹ وکلچرل سینٹر کی جانب سے مہمانوںکو خوش آمدید کہتے ہوئے سامعین کو پاکستان میںسیلاب کی تباہ کاریوںکا خصوصی ذکر کیا اور خواہش ظاہر کی کہ تارکین وطن سیلاب سے تباہ کاریوںکے نتیجے میںمصیبت ذدہ خاندانوں کی بھر وپور مددکریں انہوں نے کہا کہ بیرون ملک سامان بھیجنے والی لاجسٹک کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ وہ سیلاب زدگان کو سامان بلا معاوضہ بھیجیں گے نوشین وسیم نے حال ہی میں ریاض میں منعقدہ کوکنگ کے مقابلے میں تیسرا انعام حاصل کرنے والی پاکستانی خاتون حناءشعیب کو اسٹیج پر بلاکر پاکستان کانام روشن کرنے پر مبارکباد دی اور پھولوں کا گلدستہ پیش کیا ۔اس موقع پر ضروری تھا کہ ایک دستاویزی فلم کے ذریعے میڈم نورجہاں کی سوانح سے بھی سامعین کو آگاہ کیا جاتا ہے جو بہت دلچسپی کی حامل ہے ۔ نورجہاں کا اصل نام اللہ وسائی تھا وہ21 ستمبر کوپاکستان کے شہر قصور میں پیدا ہوئیں ۔
انہوں نے گائیکی کا آغاز نو سال کی عمر میں کلکتہ سے بطور گلوکار چائلڈ سٹار کیا۔تقسیم کے بعد، وہ پاکستان آئیں اور اپنے فلمی کیریئر کا آغاز بطور اداکار گلوکارہ اور پہلی خاتون فلم ڈائریکٹر 1951 میں فلم چن وے سے کیا۔ انہوں نے ہندوستان اور پاکستان کی مختلف زبانوں بشمول اردو، ہندی، پنجابی اور سندھی میں تقریباً 10,000گانے ریکارڈ کیے۔ نور جہاں نے 35 سال سے زیادہ فلم انڈسٹری پر راج کیا و ہ فلمی گلوکارہ ہونے کے علاوہ غزل گائیکی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں۔ 1957 میں نور جہاں کو ان کی اداکاری اور گلوکاری کی صلاحیتوں پر صدر ایوارڈ سے نوازا گیا۔23 دسمبر 2000 کو ملکہ ترنم نور جہاں حرکت قلب بند ہونے کے باعث انتقال کر گئیں ۔
اللہ وسائی، بے بی نورجہاں سے، میڈم نورجہاں تک، اور آخرکار ملکہ ترنم (میلوڈی کی ملکہ) کا خطاب حاصل کرنا، ایک ایسے ملک میں جو خواتین کے گلوکاری کے شعبے میں اہم محنت کا نتیجہ ہے ایک مزاج کا کردار جس نے زندگی کو انتہائی تیز رفتاری سے گزارا،انہوں نے ایک گلیمرس زندگی گزاری جس میں ساتھی اداکاروں کے ساتھ سخت روابط، فلمی شخصیات سے شادیاں اور پاکستانی صدور کے ساتھ تعلقات تھے۔ یہ سفر تقسیم ہند سے بہت پہلے شروع ہوا۔ اگر وہ 1947 میں پار نہ کرتیں تو وہ ہندوستان میں گانا جاری رکھتیں۔ جب نورجہان کی عمر 5سال تھی ا ن کی والدہ نے گلوکاری میں ان کی دلچسپی اور صلاحیت کو دیکھا۔ نور جہاں کو کلاسیکی تربیت کے لیے وہاں کے بہترین استاد بڑے غلام علی خان کے پاس بھیجا گیا۔ اس کی تربیت ختم ہونے کے بعد انہوں نے لاہور میں گانا شروع کیا ۔ عام طور پر فلم کی نمائش سے پہلے لائیو گانا اور ڈانس پرفارمنس میں۔ اس کے بعد وہ فلم انڈسٹری میں شامل ہونے کے لیے اپنے خاندان کے ساتھ کلکتہ چلی گئیں۔ اسی مرحلے پر وہ ''بے بی'' نور جہاں کے نام سے مشہور ہوئیں۔انہوں نے کئی پنجابی فلموں میں کام کیا، سبھی کلکتہ میں بنی تھیں۔ تاہم، اس مرحلے پر، وہ اتنی چھوٹی تھیں کہ کلکتہ کی فلم انڈسٹری نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا اور مختار بیگم اور کجن بائی جیسے عظیم لوگوں نے ان پر سایہ کیا۔1938 میں واپس لاہور چلی گئیں۔ معروف میوزک ڈائریکٹر غلام حیدر نے ان کے لیے کچھ گانے ترتیب دیے جو مقبول ہوئے۔فلموں میں انکے کردارو ںکی وجہ سے انہوںنے ڈائریکٹر شوکت حسین رضوی سے 1943میں شادی کی اور بمبئی منتقل ہوگئیں۔ 1945 سے 1947 تک، وہ بڑی ماں (1945)، زینت (1945)، گاﺅں کی گوری (1945)، انمول گھڑی (1946) اور جگنو (1947) جیسی فلموں کے ساتھ سب سے بڑی فلمی اداکاراوں میں سے ایک بن گئیں۔ ان کی گائیکی کو جذباتی موڈیولیشن اور گیت کے تاثرات سے متاثر کیا۔ اس کے حریف سوریا اور کنن بالا کو کوئی موقع نہیں ملا۔انمول غدی کی ہدایت کاری محبوب خان نے کی تھی جس میں سریندرا، ثریا اور نور جہاں (دونوں حریف) تھے۔ یہ فلم گلوکاروں کے لیے تیار کی گئی تھی، اور نور جہاں نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ یہ فلم ایک میوزیکل ہٹ تھی اور اسے نوشاد کی موسیقی کے لیے آج بھی یاد کیا جاتا ہے، آواز دے کہاں ہے، جوان ہے محبت حسین ہے زمانہ اور میرے بچپن کے ساتھی مجھے بھول جانا جیسی ہٹ فلموں کے ساتھ۔ یہ فلم 1946 میں ہندوستانی باکس آفس پر سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم بن گئی۔آواز دے کہاں ہے ہندوستان میں نور جہاں کے مختصر دور سے جڑا ہوا ہے جب وہ 1982 میں بمبئی گئی تو انہوں نے یہ گانا گایا۔ ۔ دلیپ کمار سے انہیں جو تعارف ملا، ان کے مداحوں کی طرف سے انہیں جو پذیرائی ملی، وہ یادگارہے ۔تقسیم کے بعد نورجہاں پاکستان چلی گئیں۔ وہاں ان کی پہلی فلم چن وے (1951) تھی جس کی ہدایت کاری ان کے اور ان کے شوہر نے کی تھی۔ پھر ایک کے بعد ایک فلم آتی گئی۔ایک فلم ذکر کی مستحق ہے ،کوئل (1959) اپنے شاندار گانوں کے لیے۔ اس فلم کو پاکستان سے آنے والی اب تک کی بہترین فلموں میں شمار کیا جاتا ہے اور باکس آفس پر اس نے زبردست کامیابی حاصل کی۔ کوئل بھی نور جہاں کی ایک اداکارہ کے طور پر آخری بڑی، کامیاب فلم تھی اور ایک لیڈنگ لیڈی کے طور پر ان کی آخری فلم تھی۔ ایک شاندار گانا” دل کا دیا جلایا“ تھا۔ نورجہاں نے جس ٹمبر اور کنٹرول کے ساتھ گانا لکھا وہ صرف حیرت انگیز تھا۔
خاص طور پر بعد میں اس کے کیریئر میں، بطور اداکار، مہکی فضائیں ہے۔ وہ کرشمے کی نمائش میں ماہر تھی ۔ لتا منگیشکر نے تبصرہ کیا کہ نور جہاں کی آواز کی حد نے انہیں اتنا کم اور جتنا اونچا گانا چاہا، اس کی اجازت دی، ان کی آواز کا معیار ہمیشہ ایک جیسا رہتا ہے۔انہوں نے رضوی کو طلاق دے دی اور 1959 میں اعجاز درانی ایک فلمی اداکار سے شادی کی (یہ 1970 میں طلاق پر ختم ہوگئی)۔اعجاز نے ان پر اداکاری چھوڑنے کے لیے دباو ڈالا تھا۔ بطور اداکارہ/گلوکار ان کی آخری فلم مرزا غالب (1961) تھی۔ اس کے بعد پلے بیک سنگنگ ہی ہونا تھا۔ تین دہائیوں کی اداکاری بالآخر اپنے اختتام کو پہنچی۔ افسانوی شاعر فیض احمد فیض کا نظم مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ فلم قیدی (1962) میں ایک گیت کے طور پر نظر آیا جو آج تک ہر گلوکار گاکر فخر محسوس کرتا ہے وہ موسیقار بھی تھیں انہوںنے اس گیت ”مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ یہ گیت انہوںنے بے ساختہ گایا تھا جب فیض احمد فیض جیل سے رہا ہوئے تو یہ گانا تیار ہوا تھا اس گیت پر فیض احمدفیض نے کہا تھا کہ ”آج سے یہ نظم میری نہیں میڈم نورجہاں کی ہے ۔ انتہائی مقبول سانو نہر والے پل تے بُلا کے دکھ سجنا دے (1973) مشہور ترین گیتوں میںہیںانہوں نے اپنی تمام پرانی ہٹ فلموں کو جدید احساس اور آلات کے ساتھ دوبارہ ریکارڈ کیا اور نتیجہ حیران کن تھا۔ ایک زبردست گانا جب اسے پہلی بار ریلیز کیا گیا تھا، دوبارہ ریکارڈنگ میں اور بھی شاندار ہو گیا ۔ ان کی چمکتی ہوئی ساڑھیاں، اس کی چمکتی ہوئی شخصیت، اس کے اشارے، ان کا پاوٹ، ان کی پلکیں، ان کی چمکیلی آنکھیں دیکھنے کے قابل ہیں۔ انہوں نے گلوکاروں کی ایک نسل کو متاثر کیا جن میں لتا منگیشکر بھی شامل ہیں وہ 20 سال قبل 23 دسمبر 2000 ( 27 رمضان کی شب )کو انتقال کر گئی تھیں انا اللہ و اللہ راجعون ۔ اتنی عظیم گلوکارہ کیلئے شاندار پروگرام ترتیب دینے پر پاکستانی صحافیوں کی قدیم تنظیم پاکستان جرنلسٹس فورم نے نوشین آرٹ اینڈ کلچرل کو مبارکباد دی۔