"ہم زبان "

شاز کی آواز شاز نامہ 
"ہم زبان "
شاز ملک 
اک عمر ہوئی زندگی خاموشی کا سیاہ پیرہن اوڑھے بیزاریت کے بے نام راستوں پر چلی جا رہی تھی شور کے سیاہ اندھیروں کی مسافت طے کرتے ہوئے یاد بھی نہیں رہا تھا کہ شور کے نوکیلے ناخنوں نے میری سماعتوں کے حسین چہرے پر بہرے پن کی ان گنت خراشیں ڈال دی تھیں۔۔اور مجھے سننے کی حس سے محروم کر دیا تھا۔کبھی کبھی میرا شعور مجھے یہ احساس دلانے کی کوشش کرتا کہ وہ مسلسل بہرے پن کی اذیت جھیل رہا ہے۔۔مگر شاید میرے دل کے افق پر چمکنے والا احساس کا ماہتاب اپنی تاب کھو کر انجانے درد کے گہرے کالے بادلوں میں چھپ چکا تھا۔۔ اور پھر۔کبھی مجھے لگتا۔میری بصارتوں کی پتلیوں میں بے مائیگی کا احساس مجھے میری بینائی چھننے کااذن دے رہا ہے۔۔ اور تب یہ احساس بہت توانا ہو کر ایک خوف کی لہر بن کر میرے رگ و پی میں سرایت کر جاتا کہ میں آنکھیں ہونے کے باوجود احساسِ بے بسی میں ڈھل کر دیکھنے کی حس سے محروم ہو کر نابینا ہو چکی ہوں۔۔۔ایسے میں کبھی مجھے لگتا کہ مجھے میرے بخت نے روایت کی کانٹوں بھری رہگزر پر ننگِ پا چلنے کے لئیے چھوڑ دیا ہے اور مجھے رستے زخموں کے ساتھ لڑکھڑاتے ہوئے صبر کی پٹی آنکھوں پر باندھ کر جبر کے کالے غار میں دھکیل دیا گیا۔۔ تب مجھے محسوس ہوا کہ جبر کو صبر کے ساتھ سہنا کتنی بڑی اذیت ہے۔۔میں اس سچ کو دل سے مانتے ہوئے کہ آج کی اکیسویں صدی کے جدید ترین دور کے سماج میں۔میں لڑکیوں کو روایتوں کی قبر میں زندہ دفن کر دیا جاتا ہے اور جو بچ جاتی ہیں انکے ذہن کو اندھی بے بنیاد روایتوں کے ساتھ باندھ کر سوچ کو مفلوج کر دیا جاتا ہے اور پھر ہونٹوں پر چپ کی کالی ٹیپ چپکا دی جاتی ہے کہ عافیت اسی میں ہے کہ لبوں کو سمجھوتے کی قینچی سے کاٹ کر پھینک دو تاکہ بولنے کی طلب گونگے پن کا احساس ختم کر دے۔۔گہری چپ کے احساس کی ہر حس سے محروم ہو کر مجھے لگنے لگا تھا کہ میں صدیوں پرانے دور کی باسی ہوں جو غلامی کا طوق پہنے کولہو کے بیل کی طرح بس گھومے جا رہی ہے۔۔۔ مگر یکدم جیسے اجالے کی طرف جانے والی رہگذر اپنی تمام تر روشنی کے ساتھ سامنے آگئی ہو میری آنکھیں روشنی کو دیکھنے کی عادی نہیں تھی اسلئیے بے اختیار آنکھوں ہر ہاتھ رکھ لئیے۔۔ مگر بے زبانی کے احساس کو اک ہم زبان نے ختم کیا اور میری آنکھوں پر شعور کی عینک لگا کر مجھے دیکھنے اور بینائی کے ہونے کا احساس دلایا تو مجھے لگا کہ میں بھی دیکھ سکتی ہوں زندہ لاش نہیں ایک بھرپور زندہ انسان ہوں میری سماعتیں بوجھل ضرور ہیں مگر میں بہری نہیں ہوں۔۔اندھی نہیں ہوں۔۔ بے شعور نہیں ہوں۔۔ 
اور اب جب میرے ہم زبان نے مجھے میری ہی زبان میں بات کی تو مجھے لگنے لگا ہے کہ میری خامشی چپ کے تالے توڑ کر گفتگو کے پیراﺅں میں ڈھلنے لگی ہے لفظ نوک قلم سے قرطاس پر بکھرنے لگے ہیں..
خاموشی کے طاق پر رکھے بے دھیانی کے دئیے جلنے لگے ہیں۔۔چپ کے کاسے میں الفاظ کے سکے گرنے لگے ہیں۔۔زندگی خاموشی کا سیاہ پیرہن اوڑھے بے نام راستوں پر چلی جا رہی تھی یکدم جیسے اجالے کی طرف جانے والی رہگذر اپنی تمام تر روشنی کے ساتھ سامنے آگئی ہو اور مجھے زندگی کا احساس دلا گئی ہو۔۔ میرے پاو¿ں میں آزادی سے جینے کی پائل چھنکا گئی ہو۔۔۔مجھے زندگی کی رمز بتا کر جینا سکھا کر ہنسنا سکھا گئی ہو چمکنا چہکنا مہکنا سکھا گئی ہو 
یہ بتاتے ہوئے کہ عورت خود کو نہ مارے تو اسے کوئی مار نہیں سکتا اگر وہ خود نہ جھکے تو اسے کوئی جھکا نہیں سکتا وہ روایتوں سے نہ ڈرے تو اسے کوئی ڈرا نہیں سکتا وہ خود اپنے ہنر کو نہ چھپائےتو کوئی اسے آگے نہیں لاسکتا وہ خود کو محدود خود ہی کر لے تو اسے کوئی بھی لامحدود نہیں کر سکتا۔۔۔
تو جینا سیکھو دوسروں کے لئیے نہیں اپنے لیے جئیو روایتیں نبھانے کے لئے نہیں فرسودہ روایتوں کو بدل کر جئیوخود کو اجاڑ کر نہیں بلکہ خود کو سنوار کر جئیو ریگزار میں نہ بدلو بلکہ سبزہ زار بن کر جئیو۔۔۔۔ شعور کو مار کر نہیں باشعور ہو کر جئیو
آپ پوچھو گے نہیں کہ بے زبانی کے عالم میں وہ میرا ہم زبان کون ہے۔۔
وہ ہم زبان میرے اللہ کا عشق اس کی کتاب اور پیارے نبی کی محبت اور وہ سنت ہے جسے میں نے سمجھ کر پڑھا نہیں سمجھا نہیں۔۔ جان کر جانا نہیں 
اور جب پڑھا سمجھا جانا تو معلوم ہوا کہ رب نے مجھے کتنا افضل بنایا ہے۔۔میرے دین کی پیروی نے مجھے جہالت سے نکال کر سچ میں جینا سکھا دیا 
الحمد للہ شکر الحمد للہ ثم الحمد للہ

ای پیپر دی نیشن