محبت کبھی دل سے نہ مٹنے والا جذبہ ہے۔ اس کی تخلیق خود رو پودے کی طرح ہوتی یے۔
خود بخود پروان چڑھنے والا یہ محبت کا شجر اندر ہی اندر آپ کے وجود میں اپنی جڑیں اس قدر مضبوط کر لیتا ہے کہ آپ اس کے بغیر جی نہیں سکتے۔ آپ کے خون کے ذرات میں یہ احساس گھل مل جاتا ہے۔
پھر جینا مرنا اسی احساس کے تابع ہوتا ہے۔
زمیں پہ بسنے والے ان بھولے بھالے بےخبر انسانوں پہ خدا کا سب سے بڑا انعام محبت ہے۔
زمیں پہ یہ آسمانی تحفہ ہے ،اور یہ خوش نصیب دلوں پہ اترتی ہے۔ اس ایک احساس پہ زمین وآسمان قائم ہیں۔ کائنات کو تخلیق کرنے والا اس عظیم جذبے سے سرشار یے۔ اس نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں یہ کائنات تخلیق کر ڈالی۔
جن سے ہم نے محبت سیکھی، رہنمائی سیکھی، انسانوں کی مدد کے جذبے کی اہمیت سیکھی۔
محبوب خدا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ کروڑوں درود سلام۔
محبت کا لفظ ہمیشہ تشریخ طلب رہتا ہے۔ تشنہ لبی اور کسک اس کے ساتھ ایسے ہی ہیں جیسے سانسوں کی روانی وجود میں ضم ہو تو بندہ زندہ تصور ہوتا ہے۔
بات محبت کی ہو رہی تھی ،سنا ہے انسان اپنی پہلی محبت بھلا نہیں سکتا لیکن میں سمجھتی ہوں جہاں محبت نہیں بھلائی جاتی وہاں آپ کسی مشفق انسان کی طرف سے ملنے والی رہنمائی اور حوصلہ افزائی بھی نہیں بھلا سکتے۔آپ جب جب اپنی زندگی کے مختلف ادوار سے گزرتے ہیں آپ کو جو بھی کامیابی حاصل ہوتی جاتی ہے تو ضرور ساتھ ساتھ وہ پہلے پہل کی رہنمائی اور اعانت یاد آتی ہے۔
میں یہاں اپنی تمام تر عقیدتیں بہت محترم اور مشفق ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب کی خدمت میں پیش کرتی ہوں جو آج ہم میں اپنے ظاہری وجود کے ساتھ تو زندہ نہیں لیکن وہ ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔ وہ قدم قدم پہ ہمیں یاد آتے ہیں۔ ان سے محبت کرنے والے ہمیشہ انہیں بھیگی آنکھوں سے یاد کرتے ہیں۔اور ان کی باتوں اور رہنمائی سے ہمیشہ حوصلہ پکڑتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب ایک خودار آدمی تھے۔ جہاں تک میں نے دیکھا ہر خاص و عام کی یکساں عزت کرتے تھے، بلکہ جو عام ہوتا اسے خاص عزت دیتے، پورے اخلاص سے نئیے لکھنے والوں کا حوصلہ بڑھاتے،مایوسی کی بات کبھی نہیں سنی تھی ان کی گفتگو سے۔میں نے انہیں کسی حکمران کی بےجا تعریف کرتے نہیں سنا۔
کالموں میں ہمیشہ دوسروں کو سراہتے۔ کبھی کسی کی طرف داری نہیں کی، حکومتی عہدوں پہ فائر لوگ ان کی بےپناہ عزت کرتے تھے لیکن انہوں نے کبھی کسی سے کوئی ذاتی کام نہیں لیا ہاں دوسروں کے لیے مدد کا ضرور کہتے۔محفلوں میں ان کی ایک اپنی ہی شان تھی۔اپنے خاص انداز سے رہتے۔ انہیں کبھی کسی احساس کمتری میں نہیں دیکھا گیا۔ ان کی ذات میں ہمیشہ وقار نظر آتا تھا۔ہمیشہ اپنے رنگ ڈھنک میں مطمئن نظر آتے تھے۔میں نے ہمیشہ لوگوں کو ان کی دل سے عزت کرتے دیکھا ہے۔ اور اب ان کے اس دنیا سے جانے کے بعد بھی ان کی شخصیت کےبارے میں جو شہادتیں سننے کو ملتی ہیں
یہ ہر کسی کے نصیب کا حصّہ نہیں۔ انہیں اس دنیا سے گئے دو سال گزر گئے۔
اٹھارہ اکتوبر کو ام نصرت فاو¿نڈیشن کی طرف سے ان کی برسی پہ ایک سیمنار کا اہتمام کیا گیا جس میں ان کے اہل خانہ کے ساتھ ساتھ سینئر صحافی محترم مجیب الرحمن شامی صاحب کی شرکت نے پروگرام کو رونق بخشی اور انہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔
مائرہ خان ام نصرت فاو¿نڈیشن کی صدر ہیں۔ مائرہ اور عمیر کا ذکر میں نے ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب کی زبان سے کئی بار سنا تھا اور وہ ہمیشہ ان کی حوصلہ افزائی کرتے اورانکے اس عظیم مشن کو کامیاب کرنے کے لیے دعا کرتے۔ ڈاکٹر اجمل نیازی ام نصرت فاو¿نڈیشن کے بانی تھے
یہ ادارہ تھیلسیمیا کے مریض بچوں کے علاج کے لیے ہمہ وقت اپنی کوششوں میں مصروف رہتا ہے اور ان کا علاج کرتا ہے۔خدمت خلق کا یہ ادارہ جس خلوص اور ہمدردی سے اپنے فرائض انجام دے رہا ہے یقیناً قابل ستائش ہے۔ صدر پاکستان نے اس ادارے کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے مائرہ خان کو اعزازی شیلڈ سے نوازا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ اللہ پاک ان کی کاوشوں کو قبول فرمائیں اور انہیں جزا دیں۔
اس سیمینار میں ام نصرت فاو¿نڈیشن کے سینئر نائب صدر اور مصروف صحافی محترم خالد اعجاز مفتی صاحب نے نظامت کے فرائض انجام دئیے اور ہر مہمان کو عزت بخشی۔سیمینار میں حماد نیازی نے جس درد دل سے اپنی تحریر پیش کی ۔وہ سب اہل محبت نے بھیگی آنکھوں سے سنی اور محسوس کی۔
اس سیمینار میں میاں عبد الوحید، انجینئر وحید خواجہ، فاطمہ قمر صاحبہ، سلمان نیازی اور راقمہ ثوبیہ خان نیازی کے علاو¿ہ بہت سی اہم شخصیات نے شرکت کی اور ڈاکٹر اجمل نیازی کی شخصیت و کردار پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔آخر میں بیگم ڈاکٹر اجمل نیازی صاحبہ نے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ تقریب میں ڈاکٹر صاحب کی بہین اور بڑا بیٹا احسن نیازی بھی موجود تھے ہم خلوص دل سے رب کائنات کے حضور دعا گو ہیں کہ وہ ڈاکٹر اجمل نیازی کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائیں آمین۔
ڈاکٹر صاحب کے چند اشعار
اک شخص جزیرہ رازوں کا اور ہم سب اس میں رہتے ہیں
اک گھر یے تنہا یادوں کا اور ہم سب اس میں رہتے ہیں
اک آنکھیں دریا آنکھوں کا ہر منظر اس میں ڈوب گیا
اک چہرہ صحرا چہروں کا اور ہم سب اس میں رہتے ہیں
اک لمحہ لاکھ زمانوں کا وہ مسکن ہے ویرانوں کا
اک عہد بکھرتے لمحوں کا اور ہم سب اس میں رہتے ہیں
٭....٭....٭