یوٹرن اور الزام ترشیاں 

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی سیاسی زندگی پر نظر دوڑائیں تو ان کی سیاسی زندگی ایک جانب جہاں تضادات کا مجموعہ ہے تو وہیں دوسری جانب انہوں نے اپنی سیاسی زندگی میں دوسروں پر الزام تراشی کی انتہا کی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں یوٹرن ماسٹر بھی کہا جاتا ہے کہ جس بات کا وہ دعوی کرتے ہیں ہمیشہ اس کے الٹ کرتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ لمحہ موجود میں جس کام کی وہ مذمت کر رہے ہوتے ہیں یا جس کام سے بے زاری کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں اسی لمحہ وہ کام وہ خود بھی انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ عمران خان جب اقتدار میں آئے تو اقتدار میں آنے سے قبل انہوں نے دعوی کیا کہ وہ ماضی کی حکومتوں کی طرح آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے اور اگر کبھی ان کی سیاسی زندگی میں ایسا ہو اتو وہ آئی ایم ایف کے جانے کے بجائے خود کشی کر لیں گے لیکن نہ صرف وہ آئی ایم ایف کے پاس گئے بلکہ اس کا ذمہ دار بھی اپنے حریفوں کو قرار دیتے رہے۔ عمران خان نے ہمیشہ دوسروں کو چور کے القاب سے پکارا اور سیاسی رہنماو¿ں کے نام بگاڑے انہیں چور ڈاکو کہا لیکن خود عمران خان کی حقیقت یہ رہی کہ وہ توشہ خانہ میں ایک گھڑی کی چوری میں ملوث پائے گئے جس کی بنا پر عدالت نے انہیں نہ صرف سیاسی عہدے کیلئے نا اہل قرار دیا بلکہ انہیں پانچ سال کی سزا بھی سنائی۔ یوٹرن کی بات کریں تو انہوں نے اپنی سیاسی زندگی میں نے شمار یوٹرن لئے۔ 2013 میں عمران خان نجم سیٹھی پر 35پنکچر کا الزام لگاتے رہے لیکن جب اقتدار ملا اور 35 پنکچر کی تحقیقات کی بات آئی تو کہا وہ تو میں بس سیاسی الزام لگا رہا تھا میرے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے یعنی انہوں نے پہلے تو دھاندلی کا بے بنیاد الزام لگایا اور پھر اس کے بعد اپنی بات سے ہی مکر گئے۔ 2015میں عمران خان نے اسمبلی کا بائیکاٹ کیا اور پھر آٹھ ماہ بعد اسی اسمبلی میں واپس آ گئے اور اپنی ہی بات سے یوٹرن لے لیا۔ 2016 میں ایک طویل عرصے تک پارلیمنٹ کا از خودبائیکاٹ کیے رکھا اور پھر خود ہی اس کو ختم کردیا اور جب بائیکاٹ کیا تھا تو اس دوران بھی پارلیمنٹ سے تنخواہیں وصول کرتے رہے۔ تقریبا ڈیڑھ برس قبل انہیں پی ڈی ایم میں شامل اپوزیشن جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے باہر نکالا تو حکومت سے نکلنے کے بعد عمران خان الزام لگاتے رہے کہ ان کی حکومت گرانے میں مبینہ امریکی سازش کار فرما تھی لیکن پھر بعد میں ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ وہ اب اپنے اقتدارکے خاتمے کا الزام امریکی انتظامیہ پر نہیں لگاتے اور دوبارہ منتخب ہونے پر ”باوقار“ تعلقات چاہتے ہیں۔
عمران خان جب وزیراعظم تھے تو جنرل باجوہ کی تعریف میں ہمشیہ رطب اللسان رہتے تھے لیکن اقتدار سے بے دخل ہوتے ہی ایسی بازی پلٹی کہ وہی جنرل باجوہ ”نیوٹرل جانور“ اور”میر صادق‘’اور ”میر جعفر“ بنادیے گئے اور انہیں غدار وطن بنا دیا گیا۔ عمران خان کے یوٹرن پر نظر ڈالیں تو ایک طویل فہرست ہے جیسے کہ پانامہ لیکس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا اور پھر بعد میں سپریم کورٹ کے بنائے گئے تحقیقاتی کمیشن پر اعتراض کر دیا، اپنا دھرنا حکومت کے خاتمے تک نہ ختم کرنے کا اعلان کیا اور پھرآرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے کو بنیاد بنا کر اسے ختم کر دیا۔پہلے اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار ایک سائفر کو قرر دیتے رہے کہ یہ سائفر آ گیا ہے اور جب عدالت میں کہا گیا کہ سائفر پیش کیا جائے تو کہا وہ تو سادہ کاغذ تھا اور رہی بات امریکی کی جانب سے حکومت کے خاتمے کی تو اس پر بھی میں پہلے ہی ذکر کر چکا ہوں کہ یوٹرن لے لیا گیا، کبھی امریکہ کو، کوبھی ن لیگ کو کبھی لندن سازش پلان کو تو کبھی جنرل باجوہ کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار قرار دیتے رہے۔ جب اقتدار میں تھے تو کہا کرتے تھے کہ آئی ایس آئی کو حق حاصل ہے کہ وہ فون ٹیپ کرے اور ایک چیک رکھے حکومت پر لیکن جب اقتدار سے رخصت ہوئے تو اپنی ہی ملک کی ایجنسی کیخلاف بیان داغنا شروع کر دیے۔ اپنے حریفوں کو چور چور کہتے رہے، انہیں چور اور ڈاکو کہ کر مخاطب کرتے رہے لیکن خود توشہ خانہ کی چوری میں ملوث پائے گئے۔خود قوم کو کہتے رہے کہ ریاست مدینہ بنائی جا رہی ہے لیکن یہ کیسی ریاست مدینہ تھی کہ اس میں انہیں شادی بھی چھپ کر کرنا پڑی اور ان کے قریبی عزیزو اقارب عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد ارب پتی ہو گئے۔
القادر ٹرسٹ کیس میں بشری بی بی 90 ملین پاو¿نڈ کی کرپشن میں ملوث پائی گئیں اور جنہیں وہ ایک گھریلو خاتون قرار دیتے رہے ان کی آڈیو بھی سامنے آ چکی ہیں کہ وہ کیسے خریدو فروخت میں ملوث تھیں اور عوامی پیسے کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کرتی رہیں۔ پھر جب ان کیخلاف عدلیہ متحرک ہوئی تو عدالتوں پر الزام تراشی کی جانے لگیں، موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کیخلاف ان ہی کی حکومت میں ریفرنس دائر کیا گیا اور پھر بعد میں اس سے بھی مکر گئے کہ وہ ریفرنس میں نے نہیں دائر کیا تھا کہیں اور سے آیا تھا یعنی عمران خان بیک وقت یوٹرن اور کرپشن کر بھی رہے ہوتے تھے اور اس کا الزام دوسروں پر لگا کر اپنے پیروکاروں کے سامنے پارسائی کا ڈھونگ بھی رچا رہے ہوتے تھے۔

ای پیپر دی نیشن