حضور نبی کریم ﷺ نے انسانیت کے جو تقاضے ارشاد فرمائے ہیں ان میں سے ایک دوسروں کی عزت و آبرو کا تحفظ کرنا بھی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی عزت و آبرو کا تحفظ نہیں کرتا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ انسانیت کے اصولوں سے ناواقف ہے کوئی شخص چھوٹا ہو یا بڑا ، امیر ہو یا غریب بادشاہ ہو یا پھر گداگر۔ ہر انسان کی عزت نفس ہوتی ہے جس کی حفاظت کر نا انسانیت کا تقاضا ہے۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : ” وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو گا۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ ایک آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں ، اس کا جوتا خوبصورت ہو کیا یہ تکبر ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالی خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔ تکبر تو یہ ہے کہ حق کو جھٹلایا جائے اور لوگوں کو حقیر جانا جائے “۔ ( ریا ض الصالحین )
اچھا کپڑا ، اچھا جوتا پہننا اور اچھا گھر بنا نا یہ تکبر نہیں ہے بلکہ تکبر یہ ہے کہ بندہ حق کو نہ مانے اور دوسروں کو حقیرسمجھے۔ اور دوسروں کو حقیر سمجھنے والا کبھی بھی کسی کی عزت و آبرو کا محافظ نہیں ہو سکتا۔ ہر اس بات سے حضور نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا ہے جس سے کسی انسان کی عزت و آبرو مجرو ح ہو۔ اس لیے حضور نبی کریم ﷺ نے غیبت ، تجسس اور دوسروں کی عیب جوئی کرنے سے منع فرمایا۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے وہ اس سے خیانت نہیں کرتا ، اس سے جھوٹ نہیں بولتا ، اسے ذلیل نہیں کرتا ، ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حرام ہے اس کی عزت اور اس کا مال اور تقوی یہاں ( دل میں ) ہے۔ کسی آدمی کے ب±را ہونے کے لیے یہی کا فی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔ (ترمذی)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا کہ صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا تو ایسی ایسی ہیں (یعنی ان کے قد کے چھوٹے ہو نے کی طرف اشارہ کیا ) ، آپ ﷺنے فرمایا : تم نے ایک ایسی بات کہی ہے اگر وہ سمندر یعنی پانی کے بہت بڑے ذخیرہ میں پھینک دی جائے تو وہ پانی کڑوا ہو جائے۔ ( تفسیر الخازن )۔
حضرت عروہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ حج کے موقع پرحضور ﷺ نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کی وجہ سے عرفات سے جانے میں دیر کر دی۔ پھر ایک لڑکا آیا جو کالے رنگ کا اور چپٹی ناک والا تھا تو اہل یمن نے ( حقارت سے ) کہا ہمیں اس لڑکے کے لیے روکا گیا تھا۔۔ آپ فرماتے ہیں اسی وجہ سے بعد میں یہ لوگ مرتد ہو گئے( تاریخ الاسلام )۔