مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نیب کورٹ سے ملنے والی اپنی سزائے قید کے برطانیہ میں چار سال کاٹنے کے بعد آج 21 اکتوبر کو دوبئی کے راستے سے پاکستان واپس پہنچ رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے عہدیداروں اور کارکنوں نے لاہور ایئرپورٹ سے مینار پاکستان تک انکے استقبالی جلوس اور مینار پاکستان کے جلسے کا زور شور سے اہتمام کر رکھا ہے اور مسلم لیگ (ن) کی سوشل میڈیا ٹیم نے بھی میاں نواشریف کے استقبال کیلئے خصوصی ترانے کے ساتھ ساتھ شارٹ پلیز پر مبنی ویڈیو کلپس بھی تیار کی ہیں جو سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی ہیں۔ اسکے علاوہ سابق وزیراعظم میاں شہباز شریف‘ مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے بھی لاہور اور دوسرے شہروں میں پبلک اجتماعات اور بلدیاتی نمائندگان اور پارٹی کارکنوں کی کارنر میٹنگز کے ذریعے لوگوں کو میاں نواشریف کے لاہور میں فقیدالمثال استقبال کیلئے متحرک کیا ہے چنانچہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے کی جانیوالی استقبال کی تیاریوں ںسے یہی عندیہ مل رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنے قائد میاں نوازشریف کی قیادت میں پورے جذبے کے ساتھ عوام کو ساتھ لے کر انتخابی میدان میں اتر رہی ہے۔
میاں نوازشریف کی ملک واپسی کے حوالے سے خود مسلم لیگ (ن) کے لوگ گومگو کی کیفیت میں تھے کیونکہ انکی ملک واپسی کے اعلان کے اگلے ہی روز سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطاءبندیال نے اپنی سربراہی میں قائم عدالت عظمیٰ کے بنچ کا پارلیمنٹ کے منظور کردہ نیب ترمیمی آرڈی ننس کیخلاف پی ٹی آئی چیئرمین کے دائر کردہ کیس پر فیصلہ صادر کر دیا اور ایک شق کے سوا اس پورے آرڈی ننس کو کالعدم قرار دے دیا جس کے باعث میاں نوازشریف سمیت نیب کورٹس کے سزا یافتہ تمام ملزمان کے مقدمات بحال ہو گئے اور نیب کورٹس نے ملزمان کو نوٹس جاری کرکے ان کے خلاف مقدمات کی ازسرنو سماعت بھی شروع کر دی۔ اس صورتحال میں میاں نوازشریف کے ملک واپس پہنچتے ہی انکی دوبارہ گرفتاری اور قانون کی تحویل میں جانے کا امکان پیدا ہو گیا اور اسی بنیاد پر میاں نوازشریف کی ملک واپسی بھی مخدوش نظر آنے لگی۔ میاں نوازشریف نے اس حوالے سے لندن میں اپنے پارٹی عہدیداروں اور عزیز و اقارب کے ساتھ طویل مشاورت بھی کی جس میں بالآخر یہی طے پایا کہ میاں نوازشریف کی 21 اکتوبر کو اعلان کردہ ملک واپسی اٹل ہے اور اس شیڈول میں کوئی ردوبدل نہیں ہوگا جبکہ وہ ملک واپسی پر قانونی اور عدالتی کارروائی کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔
اس حوالے سے میاں نوازشریف کے وکلاءکی ٹیم نے انہیں گرفتاری سے بچانے کیلئے قانونی حکمت عملی طے کی جس کے حوالے سے یہ باتیں زیرگردش رہیں کہ میاں نوازشریف براہ راست لاہور لینڈ کرنے کے بجائے پہلے اسلام آباد لینڈ کرینگے اور متعلقہ نیب کورٹ کے روبرو سرنڈر کرینگے جبکہ عدالت سے ضمانت ملنے کی صورت میں وہ لاہور آئیں گے اور مسلم لیگ کے استقبالی جلوس کی قیادت کرینگے تاہم بعدازاں وکلاءکی ٹیم نے یہ حکمت عملی تبدیل کرکے انکی ملک واپسی سے پہلے انکی حفاظتی ضمانت کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا جس کیلئے باضابطہ درخواست بھی دائر کر دی گئی۔ اس حوالے سے سیاسی حلقوں میں یہ افواہیں بھی گردش کرنے لگیں کہ میاں نواشریف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی ڈیل کے تحت ملک واپس آرہے ہیں۔ اس معاملہ میں پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم نے سوشل میڈیا پر طوفان برپا کئے رکھا۔ گزشتہ روز چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بنچ نے 24 اکتوبر تک میاں نواشریف کی حفاظتی ضمانت منظور کرلی اور احتساب عدالت نے بھی توشہ خانہ کیس میں جاری کردہ انکے وارنٹ گرفتاری معطل کر دیئے۔ عدالت کے روبرو میاں نوازشریف کے وکلاءاعظم نذیر تارڑ اور امجد پرویز نے موقف اختیار کیا کہ میاں نوازشریف 21 اکتوبر کو ملک واپس آکر عدالت میں پیش ہونا چاہتے ہیں اس لئے انکی حفاظتی ضمانت منظور کرلی جائے تاکہ انہیں عدالت میں پیشی کیلئے کسی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ عدالت نے اس موقف سے اتفاق کرتے ہوئے میاں نوازشریف کے وارنٹ گرفتاری معطل کر دیئے اور قرار دیا کہ اگر میاں نوازشریف 24 اکتوبر کو عدالت میں پیش نہ ہوئے تو انکے وارنٹ گرفتاری بحال ہو جائیں گے۔
یقیناً یہ ایک قانونی پراسس تھا جس میں میاں نوازشریف کو عدالت میں پیشی کیلئے عارضی ریلیف ملا جبکہ اس ریلیف سے انہیں گرفتاری کے خدشہ کے بغیر شیڈول کے مطابق ملک واپس آنے کی سہولت مل گئی اور مسلم لیگ (ن) کے ذرائع کا یہی کہنا ہے کہ میاں نوازشریف اسلام آباد کے بجائے آج لاہور ایئرپورٹ پر ہی اتریں گے جہاں سے انہیں جلوس کی شکل میں مینار پاکستان لایا جائیگا۔ عدالت میں میاں نوازشریف کو ملنے والا یہ ریلیف قانون کے تقاضوں کے مطابق روٹین کا ریلیف ہے اور یہ ریلیف پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو بھی اسلام آباد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے متعدد بار مل چکا ہے۔ سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ نے تو عمران خان کو ان مقدمات میں بھی گرفتار نہ کرنے کا حکم دیا تھا جو ابھی درج بھی نہیں ہوئے تھے۔ اس طرح عدلیہ کی جانب سے انہیں ریلیف دینے کے نادر مثالیں قائم کی گئیں جبکہ ایک ملزم ہونے کے باوجود انہیں خصوصی گاڑی بھجوا کر عدالتی پروٹوکول کے ساتھ سپریم کورٹ لایا گیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ سے میاں نواشریف کو ملنے والا عدالتی ریلیف تو اس کا عشرعشیر بھی نظر نہیں آتا جبکہ انکے سر پر عدالتی کارروائی کی تلوار بدستور لٹک رہی ہے۔ مگر پی ٹی آئی اور انکے دوسرے مخالفین کی جانب سے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر بلیم گیم کا سلسلہ انتہاءکو پہنچایا جا چکا ہے جس میں بالخصوص انکے کسی ڈیل کے تحت واپس آنے کے تاثر کو اجاگر کیا جارہا ہے۔ اس کے نتیجہ میں انتخابات سے پہلے سیاسی کشیدگی اور تلخیاں صورتحال کو مزید گھمبیر بنا سکتی ہیں۔
اس وقت چونکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے آئندہ سال جنوری کے آخری ہفتے میں اعلان کردہ عام انتخابات کی زورشور سے تیاریاں کی جارہی ہیں اور نئی حلقہ بندیوں کا مرحلہ بھی آئندہ ماہ نومبر میں طے ہو جایگا جس کے ساتھ ہی انتخابات کا شیڈول بھی جاری ہونے کا امکان ہے اس لئے سیاسی جماعتوں اور انکی قیادتوں کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ سسٹم کو نقصان پہنچنے پر منتج ہونیوالی منافرت اور کشیدگی کی فضا پیدا کرنے سے گریز کریں اور صحت مند مقابلے کی فضا استوار کریں۔ اگر کسی سیاسی جماعت کو انتخابی عمل میں شریک ہونے کے یکساں مواقع کے حوالے سے کسی قسم کے تحفظات ہیں تو داد رسی کے لیئے عدالت اور الیکشن کمیشن کے مجاز فورم موجود ہیں۔ ویاں بھی جائیں اور مخالفین کا سیاسی میدان میں بھی مقابلہ کریں۔ اگر سیاسی قیادتیں انتخابات کے ذریعے انتقال اقتدار کے مراحل طے کرنے میں سرخرو ہو گئیں تو پھر سسٹم کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہیں رہے گا اور جمہوریت کے ثمرات سے حکومت و اپوزیشن کے ساتھ ساتھ عوام بھی مستفید ہو پائیں گے۔ اگر سیاسی قیادتوں نے باہم دست و گریباں ہونے کا سلسلہ جاری رکھا تو اقتدار کی بوٹی ان میں سے کسی کے ہاتھ نہیں آئیگی اور اس صورتحال میں ماضی کی طرح جمہوریت کی منزل بھی ان سے دور ہو سکتی ہے۔