عیشہ پیرزادہ
eishapirzada1@hotmail.com
مسیحا جب ساتھ ہو تو ہرمرض کا علاج ممکن ہے۔ ہمارا نظام صحت لیکن کئی ادوار سے شکست و ریخت کا شکار رہا۔ا لبتہ گزشتہ سال اس کی قسمت اس وقت چمکی جب نگراں حکومت کی کابینہ میں ڈاکٹر جمال ناصر اور ڈاکٹر جاوید اکرم کا اضافہ ہوا۔پنجاب کا نظام صحت دو شعبوں سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اور پرائمری و سکینڈری ہیلتھ کیئر میں تقسیم ہے، دونوں ہی شعبوں کے وزراءبھی الگ الگ ہیں۔ محکمہ پرائمری و سکینڈری ہیلتھ کیئر کی باگ دوڑ ڈاکٹر جمال ناصر کے ہاتھ میں ہے۔
پیرا پلیجک سنٹرز، بیسک ہیلتھ یونٹس، دیہی علاقہ جات میں 200 رورل ایمبولینس سروسز،بنیادی مراکز صحت میں 300 الٹراساﺅنڈ مشینوں کی فراہمی،بنیادی مراکز صحت میں 24 گھنٹے علاج کی سہولیات،50 ارب روپے کی لاگت سے لاہور میڈیکل سٹی کے گرینڈ منصوبے کا اجرائ،ڈرپ اینڈ شفٹ پروگرام کے تحت دیہی علاقوں سے دل کے مریضوں کو بلاتاخیر بنیادی طبی سہولیات کی فراہمی کے ساتھ بڑے ہسپتالوں تک پہنچانا اور6-8 گھنٹے کے اندر انجیوپلاسٹی اور اینجیو گرافی جیسے متعدد پروگرام شروع اور انہیں پایہ تکمیل تک پہنچانے والے وزیر برائے پرائمری و سکینڈری ہیلتھ کیئر ڈاکٹر جمال ناصر کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ماہر امراضیات ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی کارکن بھی ہیں۔ روالپنڈی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر جمال ناصر وزارت سے قبل سوشل ویلفیئر اور مستحقین کی امداد کے لہذا سے اپنی ایک خاص شناخت رکھتے ہیں۔
وزیر برائے پرائمری و سکینڈری ہیلتھ کیئر ڈاکٹر جمال ناصر عوام الناس تک صحت کی بہتر سہولیات کی فراہمی کے لیے کیا کیا اقدامات اٹھا رہے ہیں جانتے ہیں نوائے وقت صحت ایڈیشن کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں جو نذر قارئین ہے۔
نوائے وقت : محکمہ پرائمری و سکینڈری ہیلتھ کیئر کو کیسا پایا اور اسے بہتر بنانے کے لیے کیا کیا اقدامات اٹھا رہے ہیں؟
ڈاکٹر جمال ناصر:جب اس محکمے میں آیا تو مجھے لگا یہ بہت تھکا ہوا محکمہ ہے جسے بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔سب سے پہلے ہم نے43 ہزار لیڈی ہیلتھ ورکزر کی سکیل 8 سے 5پروموشن کروائی۔اس کے بعد 1700 سپر وائزروں کو گریڈ 11 سے 8 پروموشن بھی دی اورجو بی اے پاس تھیں ان کا گریڈ 14 کر دیا۔اس کے ساتھ ساتھ لیڈ ی ہیلتھ سپر وائزر کا پٹرول الاﺅنس ڈبلیو ایچ او سے بڑھوا دیا۔
پیرامیڈیکس کی پروموشن کے لیے شرط ہوتی تھی کہ ان کا سلیبس ہوگا اور ان کی ٹریننگ ہوگی۔ لیکن بد قسمتی سے 2017 سے آج تک یہ پروسیس نہیں تخلیق ہوا اور ان کی پروموشنز رکنے کی وجہ سے مسئلہ جنم لے چکا تھا۔ لہذا آتے ہیں میں نے ڈی جی سے 15 دنوں کے اندر اندر کریکولم بنوایا، اورٹریننگ شروع کروادی ہے۔اب پیرا میڈیکس کی پروموشزنز کی ابتداءہو چکی ہے جو دس پندرہ سالوں سے رکاوٹ کا شکار تھیں۔
پنجاب بھر کی تمام نرسنگ سٹاف اور 3500 سے زائد ڈاکٹروں کی اگلے گریڈ میں ترقی کی گئی۔اس کے علاوہ ہمیں ڈاکٹرز کی کمی کا سامنا تھا لہذا ہم نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا اور 1045 نئی آسامیاں لائیں۔
ایک اہم کام دیہات میں رہنے والی خواتین کے لیے کیا وہ یہ کہ رورل ایمبولینس پروگرام شروع کیا ہے۔
ان کی تعداد 214 ہے اوران کا مقصد دیہات میں رہنے والی حاملہ خواتین کو جب رات کے وقت ڈیلیوری پیش آتی ہے تو اسے کسی قسم کا کوئی مسئلہ درپیش نہ ہو۔ اس ایمبولینس کی ہیلپ لائن 1034 ہے۔ کال کرنے پر ہماری ایمبولینس گھر سے خاتون کو لے کر ہسپتال جائے گی۔اور پیچدگی کی صورت میں کسی بڑے ہسپتال جانے کی صورتحال پیدا ہو تو یہی ایمبولینس زچہ کو لے کر جائے گی۔ اس کے علاوہ یہ ایمبولینس بیمار بچوں کے لیے بھی ہے۔
ہم نے بیسک ہیلتھ یونٹ جو پہلے دوپہر 2بجے تک ہوتا تھا کو اب 24 گھنٹے کے لیے کر دیا ہے۔اور وہ ایمبولینس جس کا پہلے ذکر کیا ہے وہ یہیں بیسک ہیلتھ یونٹ پر ہی شروع کی ہے ۔بچوں کی ویکسینیشن کو صبح شام کر دیا۔ پہلے ویکسینیشن صرف صبح کے اوقات میں ہوتی تھی۔ ڈاکٹر جمال ناصر نے مزید بتایا کہ بیسک ہیلتھ یونٹ میں نومولود بچوں کی خوراک کے لیے بھی اقدامات اٹھائے ہیں۔ اکثر نومولود ایسے ہوتے ہیں جن کی ماں شدید کمزوری کے باعث بچے کی خوراک پوری نہیں کر سکتی تو ایسے بچوں کے لیے نیوٹریشنیسٹ رکھی ہیں۔اس کے علاوہ یہاں فیملی پلاننگ سے آگاہی کی سہولت بھی ہے۔
تمام ڈسٹرکٹ اور تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں لیبارٹری ایکسرے اور CT سکین کے ایس او پیز کا جراءکیا۔
اس کے علاوہ پنجاب کے پانچ بڑے شہروں ،لاہور، ملتان، راولپنڈی، فیصل آباد ،تونسہ میں پیرا پلیجک سنٹر بنانے جا رہے ہیں۔ جہاں معذور افراد کا مفت علاج ہوگا جس میں فزیوتھراپی، ایکسر سائز اور ضرورت پڑنے پر آپریشن کریں گے ورنہ کروائیں گے۔
ان تمام اقدامات کا کریڈٹ میں وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی کو دیتا ہوں جن کا وژن مکمل طور پر عوام دوست ہے۔ہم جب انہیں کوئی ایسا کام جو عوام کی خدمت کے لیے ہو بتاتے ہیں تو وہ اس پر عمل در آمد کے لیے آڈر دینے پر ایک سیکنڈ کا بھی وقت نہیں لیتے ۔ البتہ ہم بھول جاتے ہیں لیکن وہ نہیں بھولتے۔کوئی بھی ملک صحت ، ایجوکیشن، اور فنانس پر توجہ دے توعام آدمی خود کفیل ہو جائے گا۔میں اکثر کہتا ہوں کہ سیاست دان صرف ان تین چیزوں کو ذہن نشین کر لے تو وہ سب سے زیادہ مقبولیت حاصل کر سکتا ہے۔لیکن بد قسمتی سے ہمارے سیاستدان کی توجہ کہیں اور ہی مر کوز رہتی ہے۔
ہمارے نگراں وزیر اعلی نے ان تین چیزوں کو پکڑے رکھا ہے اسی لیے وہ دن بدن مقبول ہوتے جا رہے ہیں۔
سوال: وزارت صحت پنجاب کی کرسی سنبھالنے کے بعد سابقہ ادوار کے کونسے اسرار واضح ہوئے؟
ڈاکٹر جمال ناصر: میں یہ جان کر حیران ہو گیا کہ سی اوز کی ایک ایک سیٹ کروڑ کروڑ روپے کی بکتی تھی۔کسی خاص دور حکومت کی بات نہیں کر رہا۔یہ مختلف ادوار سے ہوتا چلا آرہا تھا۔
میں ہر جگہ یہ کہتا ہوں کہ پیسے نہیں چاہیے، بس کام بتائیں۔پیسوں کا مسئلہ نہیں ہے، مسئلہ ہماری نیتوں کا ہے۔ہماری نیت ٹھیک ہو جائے تو سب سنور جائے۔
سوال :اکثر ہم میڈیکل سٹور پر نسخہ لے کر جائیں تو ڈاکٹر کی لکھی دوا موجود نہ ہونے پر دکاندار متعلقہ دوا کا Same فارمولا دینے کی تجویز کرتا ہے لیکن معقول مشورہ نہ ہونے پر خریدار شش و پنج میں مبتلا نظر آتا ہے۔ اس بارے میں کوئی حکمت عملی زیر غور ہے؟
ڈاکٹر جمال ناصر: اہم سوال کیا ہے، اس مسئلے میں ایک مسئلہ ایک اور بھی ہے کہ ڈاکٹر اکثر مہنگی ترین دوا تجویز کر دیتا ہے جو قوت خرید سے باہر ہوتی ہے جبکہ اسی دوا کا وہی فارمولا کسی اور کمپنی کی دوا میں موجود ہوتا ہے اور اس کی قیمت بھی مناسب ہوتی ہے لیکن مناسب مشورہ نہ ہونے کی وجہ سے گاہک مہنگی دوا لینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اس صورتحال سے نکلنے کے لیے ہم ایک ایسی ایپ متعارف کروانے جا رہے ہیں جس کے ذریعے ادویات کی کچھ کمپنیاں بطور آپشن دی جائیں گی تاکہ مریض دس لاکھ کی ادویات کے بجائے ایک لاکھ روپے کی دوائیں خرید سکیں، ہم کیوں مجبور کریں مریض کو کہ وہ مہنگی دوائیں ہی خریدیں جبکہ مارکیٹ میں وہی فارمولا سستے داموں بھی دستیاب ہے۔ اس کے علاوہ یہ کام ہم لیبارٹریز کے لیے بھی کر رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ کسی ایک لیبارٹری سے ہی ٹیسٹ کروانا شرط ہو،مریض کو دس لیبارٹریز تجویز کی جائیں گی اور اجازت ہو گی کہ ان دس لیبارٹریز میں سے کسی سے بھی ٹیسٹ کر واسکتے ہیں۔یوں لیبارٹریز کی من مرضیاں ختم ہوجائیں گی۔
سوال : آپ کا خاندان ایک تاریخی پس منظر رکھتا ہے، اس بارے میں قارئین کو کچھ بتائیے۔
ڈاکٹر جمال ناصر: میرے والد 1967 کے الیکشن میں فاطمہ جناح کے تجویز کنندہ تھے۔
اس کی پاداش میںانھیں شاہی قلعہ میں قید بھی کیا گیا۔ میرے والد مسلم لیگ کے ساتھ وابستہ رہے، خان قیوم کے پولیٹکل سیکرٹری ،سیکرٹری انفارمیشن رہے، اس وقت میاں نواز شریف جنرل سکرٹری تھے اور فدا محمد خان سینئر جوائنٹ سیکرٹری ۔شیخ رشید کا پہلا ٹکٹ میرے والد صاحب کو ملا تھا لیکن ان کے پاس پیسے نہیں تھے لگانے کے لیے۔ کیونکہ اس وقت تک سیاست میں پیسہ بہت شامل ہو گیا تھا۔اگر میرے والد اس ٹکٹ پر الیکشن لڑ لیتے تو شیخ رشید آج لیڈر نہ ہوتا۔
میرے دادا مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر کے دوستوں میں سے تھے اور تحریک خلافت میں انھوں نے حصہ لیا۔میرے ایک تایا انڈیا میں ہی رہے، انہیں فریڈم فائٹر کا خطاب ملا۔
میری والدہ نے دہلی میں شہزادیوں کی طرح زندگی گزاری لیکن تقسیم کے بعد خالی ہاتھ پاکستان آئیں سب کچھ لٹ گیا تھا۔ ہم بچوں کو لنڈے کے کپڑے پہنائے۔
البتہ ہم سب بہن بھائیوں کو ماں نے اچھے سکول میں پڑھایا۔یہی وجہ ہے کہ ہم تعلیم کی بدولت تبدیل ہوئے۔میری والدہ روالپنڈی کی پہلی لیڈی کونسلر تھیں۔ ہماری تربیت میں ہمیشہ تعلیم و اخلاق ترجیح رہا۔ پیسے کو ہم نے ترجیح نہیں دی۔ یہی وجہ ہے کہ شعور آنے سے لیکر اب تک خلق خدا کی خدمت کا جذبہ سینے میں قائم ہے۔