ایوان بالا، آئینی ترمیم کی منظوری پر حکومتی اتحادی کے سینیٹرز کا اظہار مسرت

چھبیسویں آئینی ترمیم کی منظوری پارلیمنٹ ہاؤس کی پررونق راتیں اڑتالیس گھنٹے پارلیمنٹ ہاؤس میں چہل پہل رہی اراکین پارلیمنٹ کی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہا ،نواز شریف بلاول بھٹو زرداری مولانا فضل الرحمن سمیت سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی جلوہ افروز رہی  پارلیمنٹ ہاؤس میں سیاسی گہمی گہمی عروج پر رہی حکومتی اتحادی اور اپوزیشن جماعتوں کے مابین سیاسی پنجہ آزمائی بھی عروج پر رہی íایوان بالا کا اہم اجلاس چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت منعقد ہوا اور چھبیسویں آئینی ترمیم کی منظوری ہوئی ترمیم کی منظوری حکومتی اتحاد کے سینیٹرز نے ڈیسک بجا کر خوشی کا اظہار کیا اور ایک دوسرے کو مبارکبادیں پیش کیں۔آئینی ترمیم کے حق میں پیپلز پارٹی کے 24ارکان ،مسلم لیگ (ن) کے 19،جے یوآئی کے 5،بی اے پی کے چار،ایم کیو ایم کے تین،اے این پی کے تین،بی این پی کے دو ،پی ایم ایل کیو کے ایک اور چار آزاد سینیٹرز بشمول انوارالحق کاکٹر،محسن نقوی،فیصل واوڈااور عبد القادر نے ووٹ دیااجلاس 5بجکر18منٹ پر اجلاس شروع ہوا وزیر قانون اعظم نذیر تارڑنے سینٹ اجلاس کے وقفہ سوالات کو ملتوی کرنے کی تحریک پیش کی جسے منظور کر لیا گیا بعد ازاں وزیر قانون نے آئینی ترمیم کا بل پیش کیا تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ آئینی ترمیم کا بل ایجنڈے میں شامل نہیں تھا اور جب وزیر قانون بل کے خدوخال بیان کر رہے تھے تو اس وقت تک بل کے مسودے کی دستاویز اراکین کو نہیں دی گئی تھی بعد ازاں یہ اراکین میں تقسیم کی گئیں اس دوران مہمانوں کی گیلری میں اراکین قومی اسمبلی ،سینٹرز بھی موجودتھے جبکہ پریس گیلری میں بھی تمام نشستیں فل تھیں، وزیر قانون کی تقریر کے دوران وفاقی وزراء اسحاق ڈار،محسن نقوی اور انوشہ رحمان حزب اختلاف کی پچھلی نشستوں پر جاکر مختلف امور پر تبادلہ خیال کرتے رہے اس دوران پیپلز پارٹی کے سلیم مانڈوی والا بھی پہنچ گئے اور محو گفتگو ہوئے۔اجلاس کے دوران مسلم لیگ ن کی سینیٹر انوشہ رحمان حزب اقتدار کی نشستوں پر بیٹھے سینیٹرز کی تعداد گنتی رہیں۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر عون عباس پبی بھی متحرک نظر آئے جبکہ ایک موقع پر وہ پچھلی نشستوں پر جاکر بیٹھے تو اس دوران سینیٹر انوشہ رحمان جو گنتی کرنے کے بعد وہاں گئی تو بعض امور پر دونوں سینیٹرز تبادلہ خیال کرتے رہے جس کے بعد عون عباس پبی سینیٹر بیرسٹر علی ظفر کی برابر والی نشست پر اکر براجمان ہو گئے اوران سے بعض امور پر تبادلہ خیال کرتے رہے ۔اس دوران اذان مغرب کے بعد بعض سینیٹرز نے نماز کا وقفہ کرنے کا کہا تو چئیرمین سینٹ نے کہا جس نے نماز پڑھنی وہ جاکر پڑھ آئیں تاہم بعد ازاں پانچ منٹ کا وقفہ کیا گیا۔نماز مغرب کے وقفہ کے بعد وزیر قانون نے اپنی تقریر جاری رکھی اور آئینی ترمیم کے چیدہ چیدہ نکات بیان کیے ۔پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر بیرسٹر علی ظفر نے اپنی تقریر کے دوران برملا کہا کہ ہم اس آئینی ترامیم کا نہ حصہ تھے اور نا حصہ بنیں گے ۔ اجلاس میں اٹارنی جنرل منصور اعوان بھی موجود تھے اور سینیٹر فاروق ایچ نائیک کے بائیں جانب نشست پر براجمان تھے ۔ایوان میں جب سینیٹر نسیمہ احسان آئیں تو بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز فردا فردا ان کی نشست پر جاکر احوال پوچھتے رہیں ۔اجلاس میں تمام جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز بشمول شیری رحمان،ایمل ولی و دیگر نے بھی خطاب کیا.ایمل ولی نے اپنی تقریر کے دوران پی ٹی آئی اور سینیٹر علی ظفر کو  ڈرامہ کرنے سے گردانا تو بیرسٹر علی ظفر کھڑے ہو گئے اور کہا غلط الفاظ استعمال نہ کریں کوئی ڈرامہ نہیں کیا تو ایمل ولی نے کہا کہ اگر برا لگا تو معذرت ،بعد ازاں سینیٹر عون عباس پبی نے ایمل ولی کو کہا کہ ان سے جاکر معذرت کریں جس پر ایمل ولی سینیٹر علی ظفر کی نشست پر جاکر ان سے  گلے ملے اور خوشگوار جملوں کا تبادلہ ہوا ۔ایم کیو ایم کے فیصل سبز واری کی تقریر کے دوران حامد خان نے تقریر کرنے کے لئے چئیرمین کو مخاطب کیا تو حکومتی بنچوں سے ارکان طلال چوہدری و دیگر کھڑے ہو گئے اور کہا اگر انہیں تقریر کرنے دی گئی تو ہمیں بھی موقع دیا جائے ۔26آئینی ترمیم کی 22شقوں کی مرحلہ وار منظوری لی گئی اور 65ارکان نے بل کی حمایت میں ووٹ دیا بعدازاں اجلاس منگل سہ پہر چار بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

ای پیپر دی نیشن