خود کو جان بوجھ کر ذہنی یا جسمانی اذیت میں مبتلا کرنا ایک پریشان کن نفسیاتی بیماری ہے۔ جمعہ کے دن سے شبہ لاحق ہورہا تھا کہ میں اس بیماری کا شکار ہوچکا ہوں۔ رات گئے گھر لوٹ کر نیند کی گولی کھانے کے بعد اتوار کی صبح اٹھا ہوں تو ذہن ذرا چست محسوس کررہا ہے۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے رویے کا تنقیدی جائزہ لیا اور نتیجہ بالآخر یہ برآمد ہوا کہ میں خود اذیتی کے مرض میں مبتلا نہیں۔ زندگی کے کئی برس صحافت کی نذر کرنے کی وجہ سے تجسس تقریباً علت کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ اسی باعث جمعہ اور ہفتے کے دو روز پارلیمان کی عمارت میں رات گئے تک منتظر رہا کہ حکومت سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس کب طلب کرے گی۔ انھیں ایس سی او کانفرنس ختم ہونے کے بعد نظر بظاہر ایک بار پھر ’عجلت‘ میں بلایا گیا تھا۔ مقصد آئین میں چند ترامیم متعارف کروانا تھا۔ کلیدی ہدف ممکنہ ترامیم کا مبینہ طورپر اعلیٰ عدالتوں میں بیٹھے چند عزت مآب ججوں کو یہ بتانا ہے کہ خود کو ریاست وحکومت کے دیگر اداروں کے مقابلے میں بالادست شمار نہ کریں۔ حکمران اشرافیہ کے دیگر ستونوں کے ساتھ مل کر ہی رعایا کو اس کی اوقات میں رکھتے ہوئے ملک کو ’استحکام‘ فراہم کرتے رہیں۔
وطن عزیز میں 1950ء کی دہائی سے یہ طے ہوچکا ہے کہ ہمارے سیاسی منظر نامے ریاست کے سب سے طاقتور ترین ادارے کی نگہبانی وقیادت میں ترتیب دئے جائیں گے۔ ریاست کے دیگر ’ستونوں‘ کو مذکورہ ادارے کے فراہم کردہ ایجنڈا کی تکمیل کرنا ہوگی۔ ہمارے ’بدعنوان اور نااہل‘ ٹھہرائے سیاستدانوں میں سے چند ایک نے مگر اس سوچ پر عمل کرنے سے انکار کرنے کی جرأت دکھائی۔ انھیں ’عبرت کا نشان‘ بنانے میں عدالتوں نے نہایت فرماں برداری سے سہولت کاری کا کردار ادا کیا۔ 2007ء میں لیکن سپریم کورٹ کے ایک چیف جسٹس تھے۔ نام تھا ان کا افتخار چودھری۔ ان کا جنرل مشرف سے چند ذاتی نوعیت کے معاملات کی وجہ سے پھڈا ہوگیا۔ ان سے استعفیٰ طلب ہوا تو انکار کردیا۔ ان کا انکار بعدازاں ’عدلیہ بحالی کی تحریک‘ میں بدل گیا۔ ریاست کو ماں جیسی بنانے کا نعرہ لگاتے ہوئے یہ تحریک بالآخر افتخار چودھری کو چیف جسٹس کے منصب پر لوٹانے میں منتج ہوئی۔
اپنے منصب پر لوٹتے ہی افتخار چودھری نے ملک میں جمہوری نظام کو تقویت نہیں پہنچائی۔ عوام کے منتخب نمائندوں کو ’جعلی ڈگریوں‘ والے ’چور اور لٹیرے‘ ثابت کرنے میں مصروف ہوگئے۔ موصوف نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے یہ تقاضا بھی شروع کردیا کہ وہ سوئس حکومت کو ایک خط لکھیں جس کے ذریعے سراغ لگایا جائے کہ ان دنوں ایوان صدر میں باقاعدہ طورپر منتخب ہونے کے بعد قیام پذیر ہوئے آصف زرداری نے ’ناجائز ذرائع‘ سے جمع کیے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھ وکروڑڈالر وہاں کون سے بینکوں میں چھپارکھے ہیں۔ گیلانی صاحب نے اپنے ہی ملک کی ملامت کا ا شتہار دِکھتا یہ خط لکھنے سے انکار کردیا۔ ہم صحافیوں کی اکثریت مگر افتخار چودھری کی ’جرأت وہمت‘ کے شادیانے بجانے میں مصروف ہوگئی۔ بالآخر یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے وزارت عظمیٰ سے فارغ کردیا گیا۔
’آزاد عدلیہ‘ کے ہاتھوں گیلانی کی فراغت نے سیاسی منظر نامے مرتب کرنے والے ادارے کو پیغام یہ دیا کہ کسی بھی منتخب وزیر اعظم کو فارغ کرنے کے لیے اسے براہِ راست مداخلت کی ضرورت نہیں۔ یہ کام ’آزاد عدلیہ‘ کی ازخود پیش قدمی سے بھی سرانجام دیا جاسکتا ہے۔ ملک کے تین بار وزیر اعظم رہے نواز شریف سے نجات پانے کے لیے لہٰذا ثاقب نثار کے سپریم کورٹ ہی کو بروئے کار لایا گیا۔ عمران خان کے حوالے سے مگر ایسے عمل کو دہرانے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ آئین ہی میں موجود تحریک عدم اعتماد والا ہتھیار استعمال ہوا۔ سابق وزیر اعظم نے اسے ’قومی سلامتی‘ کے استعمال سے ناکارہ بنادیا تو اعلیٰ عدلیہ کی ضرورت محسوس ہوئی جس نے رات گئے ہنگامی نوٹس لیا اور بالآخر عمران خان کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد پر گنتی کو مجبور کردیا۔
عمران خان سپریم کورٹ کی مذکورہ مداخلت سے فارغ ہوئے تو تحریک انصاف کے قائد اور ان کے عاشقان نے بے شمار عزت مآب ججوں کے نام لے کر دشنام طرازی شروع کردی۔ سوشل میڈیا پر ان کے خلاف جو غل غپاڑا مچا اس نے کئی ججوں کو منیر نیازی کے ایک مصرعے کے مطابق ’ان کے گھر‘ ہی میں ڈرانا شروع کردیا۔ وہ اپنے کردہ اور ناکردہ گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی کاوشوں میں مصروف ہوگئے۔ آئین کی من مانی تشریح بھی کرنا شروع ہوگئے۔ احساس جرم کی خلش سے لکھے بندیال اور ہم خیال ججوں کے کئی فیصلوں نے تحریک انصاف کو ’اخلاقی فتوحات‘ سے مالا مال کردیا۔ سیاسی منظر نامے پر کامل کنٹرول کے عادی ادارے کو لیکن ’آزاد منش‘ ججوں کی سولو پرواز نے پہلے حیران اور بالآخرچوکنا بنادیا۔ طے یہ ہوا کہ عدلیہ پنجابی محاورے کے مطابق ’ان کے چھابے میں ہاتھ ماررہی ہے‘۔ عمران مخالف سیاستدان تو گزشتہ کئی دہائیوں سے عدلیہ کے ہاتھوں ذلیل ورسوا ہورہے تھے۔ ریاست کا طاقتور ترین ادارہ بھی عدلیہ کی ’سولو پرواز‘ سے پریشان ہونا شروع ہوا تو وہ اس کے ساتھ مل گئے۔آپ کو اکتادینے کی حد تک طویل ہوئی تمہید کا کلیدی نکتہ یہ ہے کہ میری دانست میں ’آئینی ترامیم‘ کے نام پر گزشتہ چند دنوں سے جو سسپنس بھراڈراما چل رہا ہے اس کا میرے اور آپ جیسے عام اور روزمرہ زندگی کی ضروریات پورا کرنے کی اذیت میں مبتلا پاکستانیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمارے حکمران طبقات کے مابین بالادستی کی جنگ ہورہی ہے۔ میرے کئی نوجوان ساتھی مگر ’آئینی ترامیم‘ کے خلاف ہوئی مزاحمت کو حق وباطل کے مابین معرکہ تصور کرتے ہوئے اپنا جی ہلکان کررہے ہیں۔ ربّ کریم انھیں مزید توانائی فراہم کرے۔ عمر کے آخری حصے میں عملی رپورٹنگ سے ریٹائر ہونے کے باوجود تاہم میں جمعہ اور ہفتے کے دن پارلیمان کی عمارت میں کئی گھنٹے خجل خوار ہوتا رہا۔ منتظر رہا کہ حکومت ’بندے پورے کرلینے کے بعد‘ آئینی ترامیم منظور کروانے کے لیے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس کب بلائے گی۔ حکومتی وزراء اور ترجمان پارلیمان کی لابیوں سے غائب رہے۔ ٹی وی سکرینوں پر چلائے ٹکروں کے ذریعے مگر اطلاع فراہم کرتے رہے کہ اجلاس ’آج ہی بلائے جائیں گے‘۔ ہفتے کی رات گزرجانے کے باوجود مگر آئینی ترامیم منظور نہیں ہوپائیں۔ وجہ اس کی بنیادی طورپر مولانا فضل الرحمن ہیں۔ ان کے پاس ’مولانا آرہا ہے‘ کا ورد کرتے رضا کاروں کی خاطر خواہ تعداد موجود ہے۔ باقی جماعتیں عوام کو سڑکوں پرلانے کے قابل نہیں رہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت بھی اب تھک چکی ہے۔ مولانا کی اسلام آباد والی قیام گاہ غالبؔ کا بیان کردہ ’کوئے ملامت‘ بن چکا ہے جس کا طواف حکومت اور تحریک انصاف کیے چلے جارہی ہیں۔ مولانا کو ان کے ’دوستوں‘ نے فروری 2024ء کے انتخاب کے دوران اور بعد میں نظرانداز کردیا تھا۔ تحریک انصاف کئی برس سے اپنے جلسوں میں انھیں تحقیر آمیز القابات سے پکارتی رہی ہے۔مولانا نے دوستوں اور دشمنوں کی سردمہریوں اور طعنہ زنی کو ثابت قدمی سے برداشت کیا۔ اب ان دونوں کی توجہ کا مرکز بنے انھیں طواف کوئے ملامت کو مجبور کررہے ہیں۔ انھیں سلام عقیدت پیش کرنے کے بعد خود سے دوبارہ سوال اٹھارہا ہوں کہ میں مسلسل دو روز پارلیمان میں خجل خوار کیوں ہوا۔ اپنے چھٹی کے دن کیو ںضائع کیے؟