رسم و رواج ا ور غربت کی آکاس بیل

ملتان کے بس اڈے سے میاں چنوں کے لئے بس روانہ ہونے والی تھی۔ ایک شخص جو حلیہ سے بہت غریب لگ رہا تھا اپنی بیوی کو سمجھا رہاتھا کہ میاں چنوں میں بہت کفایت سے خرچ کرنا اور جلد سے جلد اپنی سسرال میں رشتہ دار کے انتقال پر تعزیت کرکے واپس آنے کی کوشش کرنا۔اس کی بیوی جس کی عمر 25 سال کے لگ بھگ ہوگی بھیگی آنکھوں سے اس کی نصیحت بڑے غور سے سن رہی تھی۔ اس کا میاں جسے وہ ریاض کہہ کر مخاطب کر رہی تھی، بہت پریشان لگ رہا تھا۔ وہ اپنی بیوی بشیراں کو سمجھا رہا تھا کہ اگرچہ اس کے ملتان سے میاں چنوں تک آنے جانے میں کافی خرچہ آئے گا لیکن جانا بھی بہت ضروری ہے ورنہ اسے سسرال کے طعنے سننے کو ملتے کہ ان کے رشتہ دار کی فوتگی پر بشیراں نہیں آئی۔ بشیراں بہت فرمانبرداری سے گردن ہلا ہلا کر ریاض کی باتوں کی تائید کر رہی تھی۔ بس روانہ ہوگئی اور ریاض نے بشیراں کو ہاتھ ہلا کر الوداع کہا۔ بشیراں کے آنکھوں میں آنسو تھے۔بشیراں کے ساتھ بیٹھی ہوئی رضیہ نے اس سے پوچھا کہ وہ رو کیوں رہی ہے میاں چنوں ملتان سے کافی دور تو نہیں اور پھر اس کا میاں بھی اسے جلد واپس آنے کا کہہ رہا ہے۔بشیراں نے کہا کہ وہ اس لئے نہیں رو رہی کہ وہ ریاض سے کچھ دنوں کے لئے جدا ہو رہی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ دو سال پہلے ان کی شادی ہوئی ہے ریاض ملتان ریلوے اسٹیشن پر قلی ہے۔ بڑی مشکل اپنا پیٹ پال رہے ہیں۔ اسٹیشن کے قریب ہی بہت چھوٹے ایک کمرے کے گھر میں کرائے پر رہتے ہیں۔ اکثر مالک مکان کرایہ وقت پر ادا نہ کرنے پر مکان خالی کرانے کی دھمکیاں دیتا ہے۔شاد ی کے بعد ان دو سال میں انہوں نے کبھی سکھ کا سانس نہیں لیا چونکہ مہنگائی بہت زیادہ ہوگئی ہے اور بجلی کا بل ادا کرنے کے پیسے بھی نہیں ہوتے اس لئے وہ صرف ایک بلب جلاتے ہیں اور بجلی کا پنکھا بھی صرف سخت گرمی میں چلاتے ہیں۔ اتنی کفایت کے بعد بھی وہ مقروض ہوتے جا رہے ہیں۔ بچھلے دو سالوں میں ا سکی سسرال میں یہ تیسری فوتگی ہے جس کے افسوس کے لئے میاں چنوں جا رہی ہے۔اس کے میاں کو ہر فوتگی پر سفر خرچ کے لئے قرضہ لینا پڑتا ہے۔ اس بار اس نے ریاض کو سمجھایا کہ وہ قرض کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں۔ اگر وہ افسوس کے لئے میاں چنوں نہ جائے او رخط لکھ کر تعزیت کر لے تو کیا حرج ہے۔ ریاض پہلی مرتبہ اس پر ناراض ہوا کہ اس نے ایسا سوچا بھی کیوں۔ اگر وہ فوتگی پر سسرال نہ گئی تو ساری زندگی طعنے سننے پڑیں گے کہ بشیراں افسوس کے لئے نہیں آئی۔ یہ کہہ کر وہ پھر رونے لگی۔ اس نے بتایا کہ شادی کے فوراً بعد اس کے گھر میں فاقے ہوئے ہیں۔ ریاض تقریباً دو ماہ بے روزگار رہا کیونکہ وائرس کی بیماری پھیلنے کی وجہ سے ٹرینیں بند ہوگئی تھیں اور جو تھوڑی بہت چل بھی رہی تھیں ان میں مسافروں کی تعداد بہت کم تھی۔ زیادہ تر لوگ تھوڑے سے سامان کے ساتھ سفر کرتے تھے اور قلی کرنے کی بجائے خود ہی سامان اْٹھا لیتے تھے۔ اللہ اللہ کرکے ٹرینیں چلنا شروع ہوئیں تو سسرال میں فوتگیوں کا سلسلہ چل پڑا۔ اَب تیسری دفعہ میاں چنوں جا رہی ہے۔ جو قرض ریاض کی بے روزگاری کے دوران لیا تھا وہ بھی ابھی ادا نہیں ہوا اور فوتگیوں کے افسوس میں شرکت کرنے کی وجہ سے مزید قرض دار ہوگئے ہیں۔ وہ دونوں میاں بیوی یہ سوچ سوچ کر ہر وقت پریشان رہتے ہیں کہ یہ قرض کب اْترے گا اور دعائیں کرتے رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے سسرال میں خریت رکھے تاکہ وہ مزید قرض دار نہ ہوں۔

فوتگی پر افسوس کے لئے جانا ہمارے معاشرے میں رسم و رواج کا ایک لازمی حصہ بن گیا ہے۔ ریاض اور بشیراں کا قصہ کوئی نیا قصہ نہیں ہے۔ یہ تقریباً ہر گھر کی کہانی ہے جس کی وجہ سے غریب بہت پریشان ہیں لیکن رسم و رواج کے بندھن میں جکڑے ہوئے ہیں۔میں ریٹائرمنٹ کے بعد سے اسلام آباد میں رہائش پذیر ہوں۔ میں نے ایک شام پلمبر کو فون کیا کہ نلکا خراب ہے آکر ٹھیک کر دے۔اس نے کہا کہ کل صبح 9 بجے آ جائے گا۔ وہ اگلے دن تو کیا ایک ہفتہ تک نہیں آیا۔ وہ کبھی ایسا کرتا نہیں تھا کہ وعدہ کرکے نہ آئے۔ مجھے کچھ تشویش ہوئی کہ شاید بیمار نہ ہوگیا ہو۔ کیونکہ اس کا فون بھی بند تھا۔ ایک ہفتہ بعد وہ آیا تو اس نے بتایا کہ اس کے ایک دوست کے والد کا اس رات انتقال ہوگیا اور وہ صبح سویرے اپنی پوری فیملی کے ساتھ بٹ خیلہ روانہ ہوگیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ پوری فیملی کے ساتھ جانے کی کیا ضرورت تھی۔ بہت پیسے خرچ ہوگئے ہوں گے۔ اس نے کہا کہ صاحب آپ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں لیکن مجبوری تھی کیونکہ پچھلے سال جب اس کے بھائی کا انتقال ہوا تھا وہ بھی اپنی پوری فیملی کے ساتھ بٹ خیلہ سے اسلام آباد افسوس کے لئے آیا تھا۔پلمبر نے بتایا کہ ایک ہفتہ اس کے کام پر نہ جانے کی وجہ سے اور بٹ خیلہ جانے اور آنے کے لئے اس کو اْدھار لینا پڑا۔ جس کی ادائیگی اس کو بچوں کا پیٹ کاٹ کر کرنی ہوگی ورنہ اسے آئندہ قرض نہیں ملے گا۔اس سب صورتحال کا بہت ہی افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ا س نے اْدھار بہت زیادہ سود پر لیا تھا۔ میں نے اسے سمجھانے کی پوری کوشش کی کہ اسے سود پر اْدھار لے کر دوست کے والد کی تعزیت کے لئے پوری فیملی کے ساتھ بٹ خیلہ نہیں جانا چاہیئے تھا۔ اس طرح وہ اپنے بیو ی اور بچوں پرظلم کر رہا ہے جن کی وہ کفالت اچھی طرح نہیں کر سکے گا اور ان کی ضروریات پوری نہیں کر سکے گا۔ لیکن اس کا ایک ہی جواب تھا کہ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو ا س کو دوست کے طعنے سننے پڑتے اور اس کی بڑی بدنامی ہوتی۔اس قسم کے بے شمار واقعات ہیں جن میں غریب لوگ اپنی رسم و رواج نبھانے کے لئے غربت کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں مساجد اور دینی مدارس کا ایک بہت منظم اور مربوط نظام موجود ہے۔  پیش اماموں اور مدرسے کے سربراہان کو اس مسئلہ پر رہنمائی کرنی چاہیئے تاکہ غریب لوگ رسم و رواج کے چکر سے باہر نکل سکیں!!

ای پیپر دی نیشن