فیصل آباد( تحصیل سمندری) کے نزدیک معروف اور قدیم گاوں خوش پور آباد مشنریوں نے آباد کیا۔ یہاں چر چ پر یہ الفاظ کندہ ہیں'' یہ خدا کا گھر اور آسمان کا آستانہ '' بزرگ فادربرناڈین کی دست مبارک سے اس گھر کا سنگ بنیاد 09اگست 1903 کو رکھا گیا یہ اپنی مثال آپ ہے اس کے خوبصورت مینار کو دور سے دیکھ سکتے ہیں اس کی محراب اور لمبی کھڑکیاں اس کی دل کشی میں اضافہ کرتی ہیں۔خوش پور کو منصوبہ بندی کے تحت بنوایا گیا۔ ہمارے والد بابو برکت پال مزید لکھتے ہیں:اینٹوں کو باریک کر کے کے چھانتے اس کے بعد 2اینٹ کا ایک حصہ چونا ڈالتے۔ گرجا گھر کی بنیاد 10فٹ چوڑائی اور 08فٹ گہرائی تھی۔32وار زمین کے اندر اور زمین کے اوپر آتے تھے۔ اس وقت خوش پور کی زمین بہت پختہ تھی اور بنیاد کی کھدائی بہت ہی مشکل تھی۔خوش پور گرجاگھر کا نقشہ بلکل صلیب کی طرح ہے۔ سوسے زیادہ مزدور کا م کرتے، 21دن میں کھدائی ہوئی تھی۔ آج کی طرح نہیں کہ بنیاد تیار ہوگئی۔ادھرڈمپ معلوم نہیں۔ زمین اچھی تھی ،تو بزرگ فادر انچارج نے اعلان کیا کہ اب بنیاد سے اوپر گرجا گھر شروع ہورہا ہییہ کام 2انجینئر نے کام جو بیرون ملک سے بشپ آف لاہورنے منگوائے۔ ارطار کی سجاوٹ مینار کاری اطراف سننے کی کرسیاں پل بیٹ جہاں پر فادر واز کرتے ہیں .یہ کام انجینئرکی وساطت سے ہوا۔ گرجا گھر کے کپڑے کی الماریاں انجینئر کے ہاتھوں میں ہوا۔ ا س طرح گرجا 18ماہ میں مکمل ہوا۔فادر کی کوٹھی /سٹرز صاحبات کی کوٹھی،لائل پور کا ہندو تھا۔ساتھ پر کام متواتر چلتا رہا۔سسٹر صاحبات کی کوٹھی چبارہ تھا۔خوش پور میں پہلی عبادت بابے بکو کے گھر میں ہوئی۔ فادر صاحب نے اعلان کیا کہ اگلے اتوار شام 5بجے گرجا گھر کی بنیاد رکھنی ہے۔ہر خاندان ڈوگری والے چک والے ڈوگرہ برادری سے بڑ یایا۔ سندھو، کسراس کے علاوہ مو بزرگان خوش پور میں رہتے تھے۔یعنی ہر خاندان کا 12سالہ نوجوان گرجاگھر کی کھدائی کر ے۔ ہر برادری کا بچہ اپنے مقررہ وقت پر آیا۔ گڑ کے ڈھیر رکھے ہوئے تھے، تاکہ جب پہلا گرجا گھر کی بنیاد رکھی تھی اور پھر گڑرتقسیم ہوا۔ گرجا گھر کی کھدائی کرتے کرتے 21دن گزر گئے۔ ابھی گرجا گھر کی اینٹ رکھنی تھی۔ یہ کام لاہور کے بشت صاحب نے پہلی اینٹ اپنے ہاتھ سے رکھی اس کے بعد گرجا گھر اینٹوں سے شروع کیا۔ اینٹوں کے لیئے فادر صاحبان نے چر چ کے لیئے اینٹوں کا بھٹہ خود تیا ر کردیا۔''خوش پور کاگرجا گھر اپنی عظمت اور خوبصورتی کے حوالے سے پاکستان کے بڑے گرجاگھروں کا مقابلہ کرسکتا ہے''واضح رہے پہلا گرجا گھر جسے انگریزوں نے 1846کو ٹری حیدر آباد سند ھ میں قائم کیا گیا۔خوش پور کا (ٹل) بہت ہی اہمیت کی حامل ہے۔خوش پور کی گھنٹی پال سنگھ نے چرچ کے لیئے تحفے میں دی تھی۔اس کی آواز آس پاس کے دیہات تک سنائی دینی ہے۔ چند سال پہلے خوش پور کا گھر چرچ دور دور سے نظر آتا تھااور دومربع زمین چرچ کو دی گئی۔بابو برکت پال لکھتے ہیں کہ 1903سے پہلے چرچ بننے سے پہلے کنواں کی تیاری ہوئی کیونکہ پانی کی بہت مشکلات تھی۔ اس کام کے لیئے سیالکوٹ کے ٹھیکیداروں سے مدد لی گئی۔ یہاں کے کنویں کا پانی بہت میٹھا تھا۔اب وہ کنواں مناسب دیکھ بھال کے سبب نہ رہا۔یہ نہایت ہی افسوس ناک ہے،بلکہ اسے محفو ظ کرنا چاہئے اس سبب سے کنواں بند کردیا۔ ا س کی اینٹیں کہا ں گئی، اپنے بزرگوں کے ہاتھ سے بنی ہوئی چیزوں کوبرباد کردیا۔سوسن ولد قادر ایک کیلئے پر مشتمل تھا،جس میں آم ،آڑو، انار کے بے شمار درخت تھے۔مشن کی زمین کے ساتھ خوش پور کا ڈاکخانہ کے سب سے زیادہ فرائض ماسٹر جلال دین ( 1908.1998 (نے دیئے۔خوش پور کی پہلی ایئر ہوسٹس سسیلیا ڈوگرا خاندان :10سال تک مختلف ممالک میں جانے کا اعزاز حاصل ہوا۔خوش پور کی پہلی خاتون سب سے زیادہ ڈراموں میں کام کرنے والی خاتون؛خوش پور میں بیلجیم فادر صاحبان سسٹر صاحبات اور سری لنکن مشنریوں :مدر لو ر ے تانہ اور سسٹر ٹریفا:''فادر روبرٹ بیلجیم کی یادگار جس نے اپنی بھیڑوںکے لیئے 30اکتوبر1918 کو اپنی جان دی۔ خوش پور کے تاریخ دان بتاتے ہیں۔ کہ ان دنوں خوش پور میں طائون کی بیماری تھی۔ خوش پور روزانہ کی بنیاد پر اموات ہو رہی تھی۔1 بشت پال ،2۔فادر جیراڈ 3۔ فادر ویلیم نے نے اپنے وطن گھر بار،اپنی جوانی قربان کر کے اپنا خاندان چھوڑ کر خوش پور کے وسط قبرستان میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ کو ہمارا سرخ سلام ۔ہم اپنے محسنوں کو کبھی نہیں بھولتے۔''ہم بابا رشید حولدار کی عوام دوست شخصیت کو بھی فراموش نہیں کر سکتے جنکی زندگی کا ہر ہر لمحہ اہل خوشپورکی فوذ و فلاح میں گزرا۔ ہماری اقلیتی وزیر خلیل طاہر سندھو اوروزیرا علیٰ مریم نواز سے اپیل ہے کہ اس گاوں کو ماڈرن ویلج قرار دیا جائے اور یہاں قدیم چرچ کی تزئین و آرائش کے خصوصی فنڈز جاری کریں۔ ہسپتال قائم کر کے سیوریج کا نظام جنگی بنیاد پر کرایا جائے۔ گائوں میں صنعتی یونٹ لگاکر بے روز گاری کو کم کرنے میں مدد دی جائے!!