جس زمین کی مناسب دیکھ بھال نہ کی جائے یعنی وقت پر پانی،بیج،کھاد اور باڑ نہ لگائی جائے اس زمین میں فصل کی بجائے خود رو جھاڑیاں اْگنے لگتی ہیں۔یہی حال ہمارے معاشرے کا ہوچکا ہے۔ یہاں آئے روز احتجاج،سیاسی ہلڑ بازی،مذہبی راہنماوں کی پر جوش تقریریں اور انا پرست لیڈروں کا کسی واقعہ کو بنیاد پر لوگوں کو سڑکوں پر لاکھڑا کرنا عام سی بات ہو چکی ہے۔کہا جاتا ہے کہ پنجابی لوگ ہر کسی کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔یا یوں کہہ لیجیے کہ پنجاب کے لوگ اتنے سادہ ہیں کہ بنا کسی تحقیق ہر جلسے جلوس،احتجاج اور لانگ مارچ کا حصہ بنتے چلے آرہے ہیں۔حضرت علامہ اقبال نے کہا تھا کہ’’
مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت
کر لے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مْریدی کا تو ہَرتا ہے بہت جلد
تاوِیل کا پھندا کوئی صیّاد لگا دے
یہ شاخِ نشیمن سے اْترتا ہے بہت جلد
علامہ اقبال خود ایک پنجابی مسلمان تھے۔آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت پنجاب میں ہی ہوئی۔ اس لیے وہ اس دھرتی کے لوگوں کے مسائل، صلاحیتوں اور زندگی گزارنے کے طور طریقوں کو کو گہرائی سے جانتے تھے۔ اقبال کے نزدیک پنجابی مسلمان ایک عظیم قوم ہے جو شعور اور عمل کی بیداری سے اپنے عظیم ورثے، زبان،رسم و رواج،اقدار،اخلاقیات اوردھرتی سے محبت کو سمجھ کر خود کو دنیا میں ایک بلند مقام پر فائز کر سکتی ہے۔کسی بھی علاقے کے لوگوں کے ترقی کرنے،ایک قوم بننے کے لیے غور و فکر کی بہت اہمیت ہوا کرتی ہے۔تحقیق کا مطلب صرف کسی موضوع پر معلومات جمع کرنا نہیں، بلکہ اس موضوع کو گہرائی سے سمجھنا، اس پر نئے زاویے سے سوچنا اور اس میں مزید نکھار پیدا کرنا ہوتاہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی بات محنت، مستقل مزاجی، اور علمی دشواریوں سے نبردآزما ہونے کی ہو،ہم میں سے بہت سے لوگ اس مشقت سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔تحقیق دراصل کسی موضوع یا مسئلے پر گہری چھان بین اور مطالعے کا عمل ہے جس کے ذریعے ہم نئے حقائق اور نظریات کو سامنے لاتے ہیں۔ یہ ایک سائنسی، ادبی یا سماجی مسئلہ ہو سکتا ہے جس پر تحقیق کی جاتی ہے تاکہ ہم اس کے بارے میں زیادہ جان سکیں اور اس کا مناسب حل تلاش کر سکیں۔ جب معاشرے کے لوگ آسانی کی تلاش میں ہوتے ہیں، تو وہ تحقیق جیسے پیچیدہ عمل میں شامل ہونے سے گریز کرتے ہیں۔تحقیق میں ناکامی کا امکان بھی ہوتا ہے،بلکہ محقق کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے کئی بار ناکام ہوتا ہے لیکن مسلسل کوشش سے ایک مدت بعد ہی سہی آنے والوں کے لیے مثال چھوڑ جاتا ہے۔
دنیا کے بڑے بڑے سائنسی، ادبی اور معاشرتی مسائل کا حل تحقیق ہی کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ اگر لوگ تحقیق سے گریز کرتے رہیں تو معاشرہ جمود کا شکار ہو جاتا ہے اور ترقی کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔تحقیق کا عمل انسان کو نئے علوم اور معلومات فراہم کرتا ہے۔تحقیق انسان کو فکری آزادی دیتی ہے، اور وہ پرانے نظریات کو نئے حقائق کی روشنی میں پرکھتا ہے۔جن معاشروں میں زندگی کو بہتر گزارنے کے لیے عوام خاص طور پر نوجوانوں کے لیے منصوبہ بندی نہ کی جائے۔لوگوں کو جذبات کے اظہار کے لیے مناسب مواقع نہ دئیے جائیں، وہاں بدامنی،فرقہ پرستی،عصبیت،گروہ بندی اورجہالت عام ہوجاتی ہے۔ایسے معاشرو ں میں لوگ اتنے کھوکھلے ہوجاتے ہیں کہ وہ اپنی پہچان تک بھول جاتے ہیں اور آئے روز شعبدہ بازوں، مدراریوں، شاہ پرستوں اور مذہبی ٹھیکداروں کی جلائی آگ کا ایندھن بنتے رہتے ہیں۔یہی کچھ حال میرے پنجاب کا بھی ہے۔
پنجاب کالج میں ایک طالبہ کے ساتھ پیش آنے والا ناخوشگوار حادثہ کی تحقیق کیے بنا جس طرح طلبا نے پرتشدد احتجاج کیا۔یہ بہت تکلیف دہ بات ہے کہ ملک کے اعلی تعلیمی ادارو ں میں پڑھنے والے نوجوان کسی بھی سنی سنائی بات کو جواز بنا کے، کلاس رومز، کالج کی املاک کی توڑ پھوڑ،جلاو گھیراو اور قتل تک کرنے لگیں۔یہ واقعہ ریاست کے سامنے سوال رکھتا ہے کہ ہمارا تعلیمی نصاب اور تربیت کرنے والا استاد بدلنے یا بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ریاست کی ذمہ داری ہے کہ نصاب ترتیب دیتے وقت مستقبل کے معماروں کی فکر نشو نما کے لیے اسباق شامل کرے۔پھر والدین اور استاتذہ کی فر ض ہے کہ نوجوانوں کو ان کی عمر کے مطابق جذبات کے اظہار کے لیے ماحول بنانے کی کوشش کریں۔ سماجی روابط پر مرد و خواتین کی سلام دعا،دوستی اور پھر محبتوں کے سلسلے چلنے لگتے ہیں تو کبھی ایسے روابط سے مکروہ سوچ رکھنے والے بدکردار لوگ بھولی بھالی معصوم لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنسا کے ان کی عزت لوٹ لیتے ہیں۔یہ نقطہ بہت غور طلب ہے کہ ہمارے دفاتر،تعلیمی ادارے اور مذہبی مقامات بھی اس عمل کی لپیٹ میں ہیں۔ہمارا تعلیمی نظام سائنس دان، محقق، موجد اور اور باعلم و عمل شہری پیدا کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔عوام کا ملکی اداروں پر سے اعتماد ختم ہوتا جارہا ہے۔احتجاج ہمارا قومی رویہ بن چکا ہے کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہونے کے بعد لوگ قانون نافظ کرنے والے اداروں اور عدلیہ پر بھروسہ کرنے کی بجائے انصاف لینے کے لیے خودنکل پڑتے ہیں۔ توڑ پھوڑ کا نقصان سب سے زیادہ خود طلبا اور والدین کو ہی ہوتا ہے، تعلیمی عمل میں خلل پڑتا ہے، اور طالب علموں کی توجہ تعلیم سے ہٹ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، مالی نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کالج میں پیش آنے والا یہ واقعہ ہمارے معاشرے میں تعلیم اور تربیت کے نظام پر سوالیہ نشان اٹھاتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مل جل کر کام کریں تاکہ تعلیم گاہیں واقعی علم اور تربیت کے مراکز بن سکیں۔اس وقت ملک میں مایوسی اور نا اْمیدی کی فضا بنی ہوئی ہے۔ایسے میں دانشور طبقے کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کی اْمید بنیں اور شعور بیداری کے لیے کام کریں۔ شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کا فرض ہے کہ لوگوں کو مایوسی بے یقینی اور جہالت سے نکالنے کے لیے اپنے کردار،قول اور قلم کا استعمال کریں۔