پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اس ملک کو مسائل کی دلدل میں ڈالنے والوں کی بہتات کے ساتھ ساتھ ایسے ہیرا صفت لوگ بھی ملے ہیں جنہوں نے نہ صرف اس ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالنے میں اپنا اہم کردار ادا کیا ہے بلکہ انہوں نے قوم کی فکر و سوچ کے نئے در وا کرنے اور سوچ سمجھ کے الجھائی ہوی اہل دانش کی گھتی کو سلجھانے میں بھی اپنا اہم کردار ادا کیا ہے ایسی ہی ایک عہد ساز اور نابغہ روزگار ہستی میں ایک اہم نام محترم الظاف حسن قریشی کا بھی ہے علی برادران کی طرح قریشی برادران نے بھی قیام پاکستان سے تعمیر پاکستان تک اپنی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال اور میسر وسائل سے اس ملک کی نہ صرف تعمیر و ترقی کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے بلکہ نسل نو کی آ بیاری کے لئے جہاد بالقلم بھی کیا ہے محترم اعجاز حسن قریشی اور محترم الطاف حسن قریشی نے اردو ڈائجسٹ کے زریعے ایک سنجیدہ طبقے کے اپنی مثبت تحریروں اور قومی سوچ کو نہ صرف اجاگر کیا بلکہ ملک میں ریڈر شپ کے فروغ کا فریضہ بھی انجام دیا اور بہت سے عالمی اور ملکی مسائل پر ایک ایسا بیانیہ تشکیل دیا جس کی صدائے بازگشت آ ج بھی سنائی دے رہی ہے ملک میں کتاب کلچر کو فروغ دینے میں قلم فاؤنڈیشن کے روح رواں عبدالستار عاصم سفیر کتاب کا کردار بخوبی نبھا رہے ہیں کہ اس پر ہنگم دور میں کتاب اور ادب دوستی کے روئیے مثبت تبدیلی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں حال ہی میں الطاف حسن قریشی کی کتاب میں نے آ ئین بنتے دیکھا اس پرفتن دور میں شائع ہوئی ہے جب ملک عزیز میں متفقہ طور پر بنائے گئے 1973 کے آ ئین میں مزید کئی ترامیم کرنے کا ڈول ڈالا گیا ہے ہر کہ آ مد عمارت نو ساخت کے فارمولے نے اس متفقہ آ ئین کو بنتے بگڑتے اور سنورتے دیکھا ہے گویا صورت حال کچھ اس شعر کی سی ہے کہ۔ جھپٹا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ بہت سی نامور حکومتی اور سیاسی شخصیات کی شبانہ روز محنتوں سے بننے والے 1973 کے آ ئین میں کئی طالع آ زماوں نے اپنے شوق خوایشات اور تجربات کے ذریعے بسمل کو بسمل اور بنا کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے قومی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دی ہے اگرچہ سبھی کرم فرماوں نے آ ئین پر حلف دینے آ ئیں کی بالا دستی اور بول بالا کرنے کا نعرہ مستانہ ضرور لگایا ہے اس پر عملدرآمد کم ہی کیا ہے کچھ طالع آزماؤں اور نام نہاد دانشوروں کو تو یہ بھی کہتے سنا گیا ہے کہ آ ئین کوئی آ سمانی صحیفہ نہیں ہے۔
پاکستان کی 1973 کی آ ئین ساز اسمبلی کے پہلے اسپیکر صاحبزادہ فاروق علی خان کا بھی اس حوالے سے اہم کردار رہا ہے ان سے بارہا ہونے والی ملاقاتوں میں اس آ ئین سازی کی کوششوں کا احوال سننے کا موقع بھی ملا ان کی کتاب جمہوریت صبر طلب میں بھی کئی چھپے گوشوں کو بے نقاب کیا گیا ہے اس آ ئین کو بنانے اور متفقہ طور پر منظور کرانے میں معروف سیاسی شخصیات شہید ذوالفقار علی بھٹو محمد طفیل مولانا۔ مفتی محمود مولانا شاہ احمد نورانی پروفسیر غفور احمد ولی خان اور دیگر سیاسی اکابرین کا اہم کردار رہا ہے جن کی سیاسی بصیرت رواداری فہم و فراست اور تحمل و برداشت نے اس مشکل اور کٹھن کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔
دلچسپ امر یہ ہے اب انہیں سیاسی اکابرین کی نئی نسل مولانا فضل الرحمن بلاول بھٹو اور دیگر کی صورت میں موجودہ 26 ویں آ ئینی ترامیم کو متفقہ بنانے کے لئے کوشاں ہیں ایسے میں یہ خدشات بھی سامنے آ رہیے ہیں کہ ان ترامیم کی آ ڑ میں کسی خاص طبقے یا شخصیت کو فاہدہ پہنچانے کی سہولت کاری نہ کی جائے کہا جاتا ہے کہ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو ایسے میں کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے کی آوازیں بھی آ رہی ہیں دنیا میں کوئی بھی ملک اس وقت ہی ترقی کی شاہراہوں پر گامزن ہو سکتا ہے جب وہاں آ ئین و قانون کی حکمرانی ہو اور ریاست کے تمام ستون نہ صرف مضبوط ہوں بلکہ اپنے آئینی دائرہ کار میں رہ کر کام کریں یہ ملکی آئین کسی بھی ملک و قوم کے طرز رہن و سہن تہذیب و تمدن اور سیاست و ثقافت اور حکومت کا آ ئینہ دار ہوتے ہیں اس لئے انہیں آ ئینے کی طرح صاف اور شفاف ہونا چاہیے تاکہ ہر چہرہ صاف واضح حسین اور شفاف نظر آ ئے۔ اس اعتبار سے الطاف حسن قریشی کی کتاب میں نے ائین بنتے دیکھا ان دستوری معاملات میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں کہ ان کی کاوشوں سے بنائے جانے والے تھنک ٹینک کے زیر اہتمام انہوں نے دستوری مسائل پر کئی یادگار سیمنار کئے ہیں ادب اور کتاب دوست ادب لطیف کے مدیر برادر مظہر سلیم مجوکہ نے بھی ان کی کاوشوں کا خصوصی تذکرہ کیا ہے اس کتاب کے پس ورق پر اہنی قیمتی رائے دیتے ہوئے بیرسٹر نسیم احمد باجوہ نے بڑے پتے کی بات کی ہے کہ قائد اعظم کی بے مثل قیادت اور لاتعداد قربانیوں کی بدولت انگریزوں کی غلامی اور ہندوؤں کی اکثریت اور چیرہ دستی سے نجات پانے کے نوے سالہ آ ئینی جدوجہد سے ہماری نئی نسل کم ہی واقف ہے اور اس آ گاہی کا کام محترم الطاف حسن قریشی نے اپنی کتاب کے ذریعے عام فہم اور دلچسپ پیرائے میں قلم بند کر دیا ہے۔
ہمارے سرائیکی خطے ڈیرہ غازی خان کے گاوں مانہ احمدانی سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر امان اللہ نے اس کتاب کے شریک مصنف کی ذمہ داریاں بھی خوب نبھائی ہیں اور اپنی قانونی معاونت اور قانونی موشگافیوں کے ذریعے قانون دان طبقوں سیاسی کارکنوں صحافیوں دانشوروں اور باشعور عوام کے لئے مفید اور خاصے کی چیز بنا دیا ہے ایسی تصانیف تمام طبقات میں قانون کی حکمرانی کا شعور گہرا کرنے اور سوئی ہوئی عوام کو جگانے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے اللہ کرے زور قلم اور زیادہ آ مین