یہ میں نے پہلے بھی اپنے کسی کالم میںلکھا ہے کہ بھارت ایک بہت ہی خطرناک پڑوسی ہے۔ زبانی طور پر تو وہ پاکستان کے حق میں بہت کچھ بولتا رہتا ہے لیکن دلی طور پر اُس کا انداز بہت منافقانہ ہے۔ دل سے اُس نے پاکستان کے وجود کو کبھی بھی تسلیم نہیں کیا۔ مہا بھارت کا خواب کچھ اس طرح بھارت کے دماغ میں سمایا ہے جو اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی نہ بھارتی دماغ سے نکل رہا ہے اور نہ اس کی شدت کم ہو رہی ہے۔ ہر بھارتی لیڈر اور بھارتی جنرل کی خواہش ہے کہ پاکستان فتح (خدانخواستہ) کر کے بھارت میں ضم کیا جائے۔ بھارت اپنے آپ کو ایشیاء کی ایک سپر پاور سمجھتا ہے ۔ اپنے اردگرد کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں مثلاً بھوٹان، سکم اور نیپال وغیرہ کو تو وہ اپنے زیر کر چکا ہے لیکن پاکستان اور چین اُس کے قابو میں نہیں آرہے۔ انہیں زیر کرنے کے لئے اپنے تمام تر وسائل ملک کی غریب عوام پر لگانے کی بجائے دفاع پر خرچ کر رہا ہے۔ دنیاکی تیسری بڑی فوج بنا رکھی ہے۔ نیوکلئیر ہتھیاروں سمیت دیگر تمام قسم کے جدید ہتھیاروں کے انبار لگا رکھے ہیں۔چین تو ویسے ہی سپر پاور ہے اُس کی طرف رُخ کرنے سے مار پڑتی ہے لیکن عذاب ہے پاکستان کے لئے۔اب تک ہم پر چار جنگیں تھوپ چکا ہے ۔ مشرقی پاکستان توڑ چکا ہے اور اب باقی ماندہ پاکستان کے پیچھے پڑا ہے۔جب بھی اُسے موقع ملتا ہے پاکستان کو نقصان پہنچانے اور بدنام کرنے سے باز نہیں آتا۔ پاکستان کی شدید خواہش ہے کہ ہم اپنے وسائل غریب عوام کی بہتری اور فلاح و بہبود پر خرچ کریںلیکن چونکہ بھارت ہماری بقاء کے لئے خطرہ بنا ہوا ہے اس لئے ہم نہ صرف اپنے وسائل بلکہ قرض لے کر بھی اپنے دفاع پر خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔
بھارت نے پاکستان توڑنے (خدانخواستہ) کا منصوبہ ایک دفعہ پھر 1986ء میں بنایا ۔ یہ ایک خفیہ منصوبہ تھا جس کے لئے خوب تیاری کی گئی۔اُس وقت فوج کی کمانڈ بھارت کے بہت ہی متحرک اور پیشہ ورانہ طور پر بہت قابل جنرل سندر جی کے ہاتھ میں تھی جو اپنا نام بھارتی تاریخ میں ہمیشہ امر رکھنے کے لئے بہت بے چین تھا۔اُس نے’’ براس ٹیک‘‘کے نام سے ایک بہت بڑی عسکری مشق ترتیب دی۔ جنگ ِ عظیم کے بعدسے یہ دنیا کی سب سے بڑی عسکری مشق تھی۔ اتنی بڑی مشق تاحال دنیا میں نیٹو نے بھی نہیں کی ۔ اس مشق میں تمام میکنائیزڈ یونٹس، آرمر ڈویژنز ، ائیر ایوئیشن یونٹس، انڈین ائیر فورس اور انڈین نیوی سب شامل تھیں۔ یہ مشق صرف دو بندوں کا دماغی فتور تھا۔ اوّل جنرل سندر جی اور دؤم وزیر دفاع مسٹر ارون سنگھ۔ اس خفیہ منصوبے میں بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی اور دیگر سیاسی رہنما بنیادی طور پر شامل نہ تھے۔ مزید یہ کہ قانون کے مطابق نہ اُن سے اجازت لی گئی اور نہ انہیں اس کا علم ہو سکا۔ایسی مشقیں ویسے تو ہر ملک اور ہر فوج کرتی ہے لیکن بھارتی مشق اس لحاظ سے خطرناک تھی کہ اس میں عسکری گولہ بارود اور میزائل تک ساتھ لائے گئے جو سب کچھ غیر روایتی تھا ۔
بھارت نے ابتدائی طور پر چار لاکھ فوج راجستھان کے صحرا میں متحرک کی۔یہ مشق 18نومبر 1986ء کو شروع ہوئی ۔ فوج کی تعداد بڑھتے بڑھتے آٹھ لاکھ تک جا پہنچی۔ دس ہزار سے زائد ٹینکس صحرا میں متحرک کئے گئے۔ میکنائیزڈ انفنٹری کی تمام یونٹس، پانی اور زمین پر چلنے والی گاڑیاں وغیرہ سب ٹیسٹ کی گئیں۔ بھارت کی مغربی کمانڈ کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ایس کے ہُون کے مطابق جنرل سندر جی نے تمام بھارتی فوج بغیر وزیراعظم اور پارلیمنٹ کی اجازت کے متحرک کی جو کہ غلط تھا۔ بھارت کا منصوبہ بڑا سادہ لیکن خطرناک تھا۔ ظاہری طور پر جنرل سندر جی اور دیگر جنرلز شور مچاتے رہے کہ ’’ہم تو صرف اپنے نئے عسکری تصورات اور میکنائیزڈانفنٹری کی کارکردگی کا تجربہ کر رہے ہیں جس پر کوئی ملک اعتراض نہیں کر سکتا۔‘‘ بھارت اپنی میکنائیزڈ انفنٹری اور آرمر یونٹس پاکستان کے بارڈر کے نزدیک لے آیا۔ اصل منصوبہ یہ تھاکہ بھارت پاکستان کو سخت اشتعال دلائے گا کہ پاکستان کوئی چھوٹی موٹی جنگی حرکت کرے تو بھارت فوری شور مچا دے گا کہ پاکستان نے بھارت پر حملہ کر دیا ہے۔ایسی صورت میں بھارتی وزیراعظم بھی جوابی حملے کی اجازت دے دے گاتو بھارت فوری طور پر دو کاروائیاں کرے گا۔ فوج تو پہلے ہی پاکستان کی سرحد کے نزدیک بمعہ بھاری ہتھیاروں کے موجود تھی۔ لہٰذا یہ فوری طور پر سرجیکل اسٹرائیک کے لئے سندھ میں داخل ہو گی اور پاکستان کی پنجاب اور کراچی کے درمیان ہائی وے اور ریلوے لائن پر حملہ کر کے رحیم یار خان اور صادق آباد کے مقامات پر کاٹ دے گی۔ جب حیدر آباد اور کراچی باقی ملک سے الگ ہو جائیں گے تو ایسی صورت میں باقی ماندہ پاکستان زندہ نہیں رہ سکتا۔ دوسرا یہ کہ بمبار اور فائٹر طیاروں کی ایک مضبوط سارٹی اُڑ کر جیسے 1981ء میں اسرائیلی طیاروں نے عراق کی اوزیراک نیو کلئیر انسٹالیشن تباہ کی تھی اسی طرح بھارتی طیارے کہوٹہ تباہ کریں گے۔
اس وقت ملکی قیادت جنرل ضیاء الحق کے ہاتھ میں تھی جو کہ ایک دلیر ، باشعور اور مضبوط اعصاب کا مالک انسان تھا۔ بھارتی بھی اُس سے ڈرتے تھے۔ وہ اب تک پچھتاتے ہیں کہ کاش ہمارے پاس بھی ضیاء الحق کے مقابلے کی لیڈر شپ ہوتی۔ ضیاء نے فوری طور پر کہوٹہ کی حفاظت پر مامور ائیر فورس فائٹر جہاز اور کمانڈوزموقعہ پر پہنچا دئیے ۔ ساتھ ہی اپنی ساری آرمی بمعہ آرمر کو ر سرحد پر ڈپلائے کر دی۔ پاکستان کا خیال تھا کہ حملہ پنجاب پر آئے گا۔ ضیاء الحق نے فوری طور پر دو کام کئے۔ تمام حفاظتی اقدامات کے بعد مشرقی پنجاب کے سکھوں کو اپنی آزادی کے لئے بھڑکایا جو پہلے ہی اپنے گولڈن ٹیمپل پر حملہ کی وجہ سے بہت غصے میں تھے ۔ یہ سن کر بھارت کے پسینے چھوٹ گئے کہ اگر پاکستان پنجاب میں داخل ہوا تو خالصتان بن جائے گا۔ دوسرا ضیاء الحق کی بن بلائے بھارت میں کرکٹ ڈپلومیسی نے راجیو گاندھی کے پسینے چھڑا دئیے۔ضیاء الحق بن بلائے کرکٹ دیکھنے کے بہانے نئی دہلی جا پہنچے۔ ضیاء الحق نے ائیر پورٹ پر راجیو گاندھی کو ایک طرف بلا کر کہا:’’ مسٹر راجیو مجھے پتہ ہے کہ تم نے پاکستان پر حملے کی اجازت دے دی ہے لیکن یاد رکھو اس جنگ کے بعد دنیا ہلاکو خان اور چنگیز خان کو بھول جائے گی۔ صرف ضیاء الحق اور راجیو کویاد رکھے گی کیونکہ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہی سب کچھ ہمارے پاس بھی ہے۔ پاکستان اگر خدانخواستہ ختم بھی ہو گیا تو مسلمان ممالک پھر بھی رہیں گے لیکن اگر ہندوستان مٹا تو دنیا سے ہندو سلطنت ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی۔ آپ کے بڑے شہروں کے صرف نام زندہ رہ جائیں گے شہر زندہ نہیں رہیں گے۔ اگر تم نے میری واپسی تک اپناحکم منسوخ نہ کیا تو میں واپس پہنچ کر پہلا حکم یہی دوں گا۔‘‘موقعہ پر موجود لوگوں کے مطابق راجیو کے ماتھے پر پسینہ آگیا اور ٹانگیں کانپنے لگیں۔ اسی رات حملے کا حکم منسوخ کر دیا گیا۔فوجی ڈپلومیسی کام دکھا گئی۔پاکستان زندہ باد!