طلبہ احتجاج اور پیکا ایکٹ

Oct 21, 2024

کامران نسیم بٹالوی

ایجادات و اختراع نے جہاں حضرت انسان کی زندگیوں میں اسانیاں فراہم کی ہیں وہاں اپنے لیے اتنے ہی نت نئے چیلنج اور مسائل بھی پیدا کر ڈالے ہیں ویسے تو انفارمیشن ٹیکنالوجی تمام شعبہ ہائے زندگی کا احاطہ کرتی ہے لیکن ابلاغی نظام (کمیونیکیشن سسٹم )میں اس قدر بدلاؤ اور چیلنج ارہے ہیں کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا جدید دنیا میں جب ٹی وی چینل نے انفوٹینمنٹ کی اصطلاح متعارف کروائی تو عام ویور کو اس کی سمجھ نہیں تھی اگرچہ یہ لفظ انفارمیشن اور اینٹرٹینمنٹ کا مجموعہ ہے جس کے تحت بیشتر نیوز چینل میں اپنے ناظرین کو مسلسل خبروں ٹاک شو و دیگر خشک قسم کے پروگراموں کی اکتاہٹ سے بچانے کے لیے کچھ مزاحیہ اور تفریح پروگرام بھی شامل کر لیے جن کو کافی حد تک پذیرائی ملی نہ صرف یہ بلکہ مین سٹریم میڈیا نے اس ضمن میں ہمیشہ کی طرح پیشہ وارانہ اور اخلاقی ضابطوں کو بڑی عمدگی سے ملحوظ خاطر رکھا مگر سوشل میڈیا یا پھر ڈیجیٹل میڈیا کی ٹرانسفارمیشن کے ساتھ ہی جب تفریحی پلیٹ فارم کے ڈیجیٹل کرییٹرز نے خبروں اطلاعت اور تبصرہ نگاری کے لیے اپنا غیر ماہرانہ حصہ ڈالنا شروع کیا جہاں نہ کوئی ضابطہ اور نہ ہی کوئی حدود و قیود تھی تو باقاعدہ شعبہ اطلاعات ونشریات ایک ماؤنٹسٹر (بلا) کی صورت دھار گیا جس سے کسی بھی قسم کا پروپیگنڈا نہ صرف آسان تر ہو گیا بلکہ مطلوبہ مقاصد کے حصول میں بھی کامیاب ٹھہرا مطلب کوئی بھی کسی مخالف کی جب چاہے پگڑی ا چھا لے جب چاہے کسی پر توہین مذہب کا الزام تھوپ دے یا پھر اپنے کاروباری حریف کے کاروبار کا دیوالیہ کرنے کے لیے کوئی بھی من گھڑت کہانی گھڑ لے یا پھر جس کو چاہے غداری کا ٹائٹل دے دے۔ یہ ایسے حساس اور نازک معاملات بن چکے ہیں کہ گلوبلی ہر خطہ ہر قوم ہر ملک کہیں نہ کہیں پراپیگنڈے کے اس مانسٹر،(بلا) کی تباہ کاریوں کا شکار ہے حالیہ دنوں لاہور کے ایک نجی کالج میں جس کی پاکستان بھر میں برانچیں ہیں جن میں لاکھوں طالب علم زیر تعلیم ہیں ڈیجیٹل میڈیا کے مونسٹر کی بھینٹ چڑھ گیا عام شہریوں کے ساتھ ساتھ یہ واقعہ ابلا غ کے طلبہ کے لیے کیس سٹڈی کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جہاں اس کے ذریعے سمجھنا اسان ہوگا کہ مس انفارمیشن ڈس انفارمیشن فالز انفارمیشن وائٹ بلیک یا گرے پراپیگنڈا استعمال کرتے ہوئے چنگاری( بھانبڑ) بڑے الاؤ کا روپ دھار کر مخالف اور اس کی املاک کو کیسے خاکستر کیا جا سکتا ہے مبینہ طور پر اس افسانوی کہانی جس میں ایک طالبہ کے ساتھ گارڈ کی زیادتی پر اٹھنے والے کہرام اور جلاؤ گراؤ و تشدد کے بعد ریاست اور اس کے اداروں کی جانب سے ابتدائی تحقیق اور بیان اور طلبہ کو اکسانے والے ایکٹیوسٹ کے ڈس انفارمیشن یا فالز انفارمیشن کے اقبال جرم پر قلم بند اور نشر ہونے والے بیانات نے اس ڈرامے پر مچی ہا ہا کار کو نہ صرف ختم کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا بلکہ اس کے پیچھے ان کرداروں کو بھی اشکار کیا جو طلبہ کو ایک ٹول کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ملک میں محض اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے انارکی پھیلانے کے درپے ہیں لیکن حیرت اس امر کی کہ پولیس کی تحقیقات کے بعد اس واقعہ کو جھوٹ قرار دینے کے بعد بھی بہت سے اہل وطن اس کو ماننے سے انکاری ہیں نہ صرف یہ بلکہ بہت سے اہل علم و دانش بھی بری طرح تعلیم دشمن اس پروپیگنڈے کا شکار ہو چکے ہیں جب ریاست ٹھوس شواہد پر مبنی اس واقعہ کو ایک فرضی اور افسانوی قرار دے رہی ہے کے باوجود اپنی بات پر اڑے رہتے ہوئے کوے کو سفید کہنا کے مصداق جہالت سے کم نہیں جہاں نہ کوئی متاثرہ فرد ہے نہ کوئی مجرم ہے اور نہ ہی کوئی ایف ائی ار ہے لیکن پھر بھی ایسے ہی لوگوں کی تسلی اور تشفی کے لیے حکومت پنجاب کا جے آئی ٹی بنانا ایک مستحسن قدم ہے تاکہ اصل محرکات اور اکسانے والوں کی بیخ کنی کی جا سکے اور یہ انتہائی ضروری بھی ہے تاکہ حکومت مخالف پروپیگنڈا کرنے والوں کے منہ بند ہو سکیں۔
 یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں فائر وال کا بجٹ مختص کیا گیا اور پھر جب اس کو عملی طور پر اپریشنل کیا گیا تب ملک کے اندر اور باہر سے اظہار آزادی رائے کے حق میں واویلا اٹھا اور اس کے ساتھ جب بھی کسی حکومت نے پیکا ایکٹ لاگو کرنے کی کوشش کی تب بھی آزادی اظہار رائے پر سوالات اٹھے مانا کہ ہر ترقی یافتہ ملک مذکورہ دونوں اقدامات کے ذریعے اپنے ملک پر حملہ اور ہونے والی اندرونی و بیرونی خلفشار سے آہنی ہاتھوں سے نمٹ سکتا ہے لیکن اہم چیز اب وقت آ چکا ہے پیشہ ور اور غیر پیشہ ور کے درمیان ایک واضح سطر کھینچی جائے اور یہ فائر وال اور پیکا ایکٹ کو اس نامعقول یا پھر سیاسی ڈیجیٹل کریٹر ملازم پر لاگو کیا جائے جو بندر کے ہاتھ ماچس کے مصداق والا کام کرتے ہوئے جنگل میں آگ لگانے میں دیر نہیں لگاتا جبکہ اس کے مقابلے میں ہمیشہ مین سٹریم میڈیا پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے ثبوتوں کے ہمراہ مصدقہ خبر فراہم کرتا ہے نجی کالج کے اس مبینہ واقعہ پر سیاسی یوٹیوبر ٹک ٹاکر موبلائزر پر شکنجہ کسنا تو ٹھیک بات ہے مگر پروفیشنل جرنلسٹ کو واقعہ کی رپورٹ کرنے پر مقدمات میں الجھانا سراسر زیادتی ہے البتہ آئے روز سوشل میڈیا کے توسط سے اٹھنے والی شورشوں کو کنٹرول کرنے کے لیے صحافتی تنظیموں اور سٹیک ہولڈر کے ساتھ ساتھ حکومت کو از سر نو صحافتی ضابطوں کا جائزہ لیتے ہوئے نئی سفارشات مرتب کرنا ہوں گی لیکن فیک نیوز کی نذر ہونے والے طالب علم جن کو حوالات کی ہوا کھانی پڑی مستقبل کے ان کے کریکٹر سرٹیفکیٹ پر ایک دھبہ لگ چکا ہے جو کبھی مٹ نہ پائے گا۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ ایسے واقعات طلبہ تنظیم سازی کی اہمیت کو اجاگر کر رہے ہیں مگر حقائق کی روشنی میں یہ بات کہنا بے جا نہ ہوگی کہ یہ ایک منظم سازش تھی جس نے ایک طرف و سیع پیمانے پر شعبہ تعلیم میں اپنا حصہ ڈالنے والے اس کالج کی ساکھ کو نقصان پہنچانا تھا وہاں ملک کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کی سکیم تھی

مزیدخبریں