سلمیٰ اعوان کے اعزاز میں فنکشن تھا۔ میں بیٹھی تھی ایک لڑکی میرے سامنے آئی‘ اس کے ہاتھ میں ایک افسانوں کی کتاب ’’فریم سے باہر‘‘ تھی۔ بڑی محبت سے مجھے دی اور کہا کل میری اس کتاب کی رونمائی ہے‘ یہ اس کی پہلی افسانوں کی کتاب ہے۔ اس سے پہلے میں اس کو نہیں ملی تھی۔ اس نے محبت سے دعوت نامہ دیا اور کہا کہ آپ ضرور تشریف لائیں۔ سو میں نے وعدہ کر لیا اور اس کا فنکشن بھی اٹینڈ کر لیا۔ میں نے دعا کے فنکشن کے دو دن کے بعد اس کی کتاب پڑھی… وخیال آیا دنیا میں کوئی افسانہ نیا نہیں ہوتا۔ صرف لب و لہجہ اور اسلوب نیا ہوتا ہے۔ تجربہ، مطالعہ اور زبان کا صحیح استعمال ضروری ہوتا ہے۔ میں نے محسوس کیا اس کے افسانے بہت مختلف ہیں۔ جیسے اس افسانوں کی کتاب کا نام فریم سے باہر ہے۔ یعنی روائتی نہیں ہے۔
میں نے اپنی پہلی فرصت میں اس کا ایک افسانہ… دوراہا پڑھا تو مجھے بہت اچھا لگا۔ اس میں انسانی فطرت کی بھرپور عکاسی کی ہوئی تھی… آہستہ آہستہ میں نے اس کے باقی افسانے پڑھے… تو میں اس کی گرفت میں آچکی تھی۔ میں حیران تھی کہ اس کی پہلی کتاب کے افسانے دوسرے لوگوں سے کافی مختلف تھے… اور بہت اچھے ہیں۔ جنریشن گیپ کی وجہ سے افسانوں میں کچھ تبدیلی آگئی تھی مگر اچھا افسانہ چاہے پرانا ہو یا نیا… وہ اپنی پہچان کرواتا ہے… اس نے کوشش کی ہے کہ افسانوں کو منفرد لکھا جائے… اس کے افسانوں میں اختصار ہے جو قاری کے لئے خوش آئند بات ہے… اب لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ لمبے لمبے افسانے پڑھیں… اگر مختصر افسانے دلچسپ ہوں… قاری پڑھتے ہوئے بوریت محسوس نہ کرے تو وہ بہترین افسانہ ہو گا۔
دعا عظیمی کو یہ ہنر آتا ہے… بڑی خوبصورت منظر کشی کرتی ہے افسانہ تصویر بتاں میں لکھتی ہے۔
دریا میں چاند کی کرنوں کا عکس طلسماتی سا ہے‘ فضا میں لطف کے بادل نے پرندے کی طرح پر پھلائے… بہت سے ادھورے دائروں میں ایک دائرہ تکمیل کی حدوں کو چھونے جا رہا تھا۔ خدا کی قدرت تھی حسن اتفاق کرشمہ یا غیر معمولی واقعہ جنگل میں رقص طاؤس تھا یا پانیوں کی مہک کی آمیزش گلابی کنول کے جھرمٹ سے جھیل بھری تھی۔
دعا عظیمی بنیادی طور پر ایک اچھی افسانہ نگار ہے۔ ہر افسانے میں بڑی گہرائی نظر آئی… یوں لگتا ہے کہ اس کا گہرا مشاہدہ ہے کہ پڑھنے والے کو ایک باؤ کا احساس دامن گیر رہتا ہے اور یہی بنیادی لوازمات ہیں جو افسانے کی تشکیل وتعمیر کے لئے ضروری تصور کئے جاتے ہیں
اس کی تخلیقی صلاحیتیں اس کی عمر کے ساتھ ساتھ پھیلتی جائیں گی زمانے کی دھوپ نے اس کے فن کو بطور پہلی کتاب کے ہی نکھار دیا ہے۔ ادب کی اعلی قدروں اورمزاج کو بر قرار رکھا ہے آجکل کے زمانے سے ہٹ کر لکھنے کی کوشش کی ہے۔
دوراہا افسانے میں بتانے کی کوشش کی ہے کی فطرت کبھی نہیں بدل سکتی… میرے خیال سے پہاڑ اپنی جگہ سے ہل سکتا ہے مگر انسان کی فطرت نہیں بدلتی اس افسانے میں یہ بتایا گیا ہے شوہر طوائف کے چکر میں پڑ کر بیوی کو وقت نہیں دیتا تو وہ اپنے میکے چلی جاتی ہے تو مسجد میں جاکر اللہ سے توبہ کرتا ہے اور بیوی کو منا کر گھر لے آتا ہے وہ بیوی سے وعدہ کرتا ہے کہ اب کبھی نہیں جائے گا کچھ عرصے کے بعد بازارسے پھولوں کے گجرے لیتا ہے… سوچتا ہے یہ بیوی کو دے دیدے گا اور جلیبیاں خریدی ہیں وہ بچوں کو دیدے گا بچے کھا لیں گے پوری شدت سے گھر لوٹ جانا چاہتا ہے اسی کش مکش میں میں اسے زور دار چکر آیا… اس نے خود کو سنبھالا مگر کسی نادیدہ طاقت کے زیراثر تیز تیز قدم اٹھاتا بالا خانے کی سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
تقریباً سب ہی افسانے اپنی نوعیت کے بہت عمدہ ہیں جن میں گہرائی کوٹ کوٹ کر بھری ہے… الفاظ کا چناؤ بہت خوبصورت ہے دعا کے افسانوں میں ہر لحاظ سے انفرادیت ہے
پرائیویٹ افسانے میں لکھتی ہیں۔
میں ایک میٹنگ میں تھابہت سے سوالوں کے جوابات دے رہا تھا میرے دماغ کا دسواں حصہ استعمال ہورہا ہے میری نظر کھڑکی سے باہر گئی۔ آسمان وسعت میں وہاں سے پلٹ کر سڑک کے دوسری جانب پلازے کو دیکھا۔ میں نے غور کیا چھ منزلوں سے اوپر بھی منزلیں ہیں میں کھڑکی سے اب اندر کی طرف دیکھنے لگا تمام لوگ میرے سمیت روٹین کی ایک میٹنگ میں بیٹھ کر ایک دوسرے سے گفتگو کر رہے تھے اگر میں وہاں ہوں تو میں یہاں کیسے ہوں کیا میں اپنے جسم سے باہر ہوں کیا میں ہوا میں تہر رہا ہوں میری نظر میرے جسم یہ تھی مگر میں تو اپنے پاس Boss کے سوالوں کا جواب دے رہا ہوں اس طرح کے الفاظ اپنے افسانوں میں دعا ہی لکھ سکتی ہے اور باقی کا سمجھنا قاری کے اوپر چھوڑ دیتی ہے ۔
میری دعا ہے کہ مستقبل میں بھی اس سے زیادہ اچھے افسانے لکھے۔ ادب کی دنیا میں قدم رکھ چکی ہے… اور یہ قدم آگے ہی بڑھتے جائیں اور ثابت کرے کہ ادب کی دنیا اس سے دور نہیں۔ اللہ کرے اس کا زور قلم اور بھی ہو زیادہ۔
٭…٭…٭