جے یو آئی کے رہنمائوں کو ارکان اسمبلی کے اغواء اور خریدنے کا خوف لاحق ہو گیا۔
ایک بار پھر ارکان اسمبلی کی بولیاں لگنے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ اس بار جے یو آئی کے دو ثقہ راوی کہہ رہے ہیں کہ ارکان اسمبلی کو 50 کروڑ کی پیشکش ہو رہی ہے۔ یہ کہتے ہوئے عبدالغفور حیدری کی زبان تک نہیں لڑکھڑائی۔ اتنی بڑی پیشکش تو لوگ وزارت عظمیٰ کیلئے نہیں کرتے۔ دوسری طرف حمد اللہ الگ باجا بجا رہے ہیں کہ ارکان اسمبلی کو اغواء کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف فضل الرحمن جی اپنے ترمیمی مسودے پر بات ہو رہی ہے‘ کا سندیسہ دے رہے ہیں۔اپنی تجاویز دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کوشاں ہیں کہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھے یعنی پی ٹی آئی مان لے۔ اب یہ دو ثقہ راوی کچھ اور کہانی سنا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ناں
حقیقت روایات میں کھو گئی
یہ امت خرافات میں کھو گئی
اصل بات ابھی تک سامنے نہیں آرہی کہ کیا مولانا عبدالغفور حیدری قیمت کا تعین کرکے اپنے ارکان کی بولی لگانا چاہتے ہیں یا حمداللہ اپنے ارکان کو اغواء ہونے سے ڈرا رہے ہیں۔ کہیں یہ سب نرخ بالاکن کہ ارزانی ہنوز والی مشق تو نہیں۔ اب ویسے بھی مولانا فضل الرحمان کی ساری پھوں پھاں بانی پی ٹی آئی نے نکال دی ہے۔ وہ لگتا ہے کسی مسودے پر راضی نہیں۔ کہیں وفد سے کہتے ہیں کہ ملاقاتیں جاری رکھیںیوں جلد ہی۔
کچی ٹٹ گئی جہاں دی یاری
او پتناں تے رون کھڑیاں
والا منظر بھی سامنے آنے والا ہے۔ جس کے بعد شاید کپتان کی کھوئی ہوئی زبان واپس لوٹ آئے اور وہ ایک بار پھر مولانا کے حوالے سے پرانی بے تکلفانہ طرز تکلم اختیار کرلیں۔ چونکہ انہوں نے کافی صبر کرلیا اور بہت کچھ برداشت بھی کر لیا ہے۔ جمہوریت‘ آئین اور قانون کے نا م پر مولانا نے بھی کافی حد تک پی ٹی آئی والوں کو سر پہ بٹھا کر ، برداشت کرکے اپنا صبر و تحمل دکھادیا۔ مگر اس آئینی ترمیم کے کھیل یا ڈرامہ نے ایک بار پھر معاملہ خراب کردیا ہے‘ اب مولانا بلاول اور نواز شریف کو کیا کہیں گے کہ وہاں جیل سے ٹکا جواب آیا ہے۔جن کے آسرا پر مولانا دم خم دکھا رہے تھے انہوں نے ہی مولا ناکا دم نکال دیا ہے تو اب خم کہاں بچا ہوگا۔
٭…٭…٭
جیل میں کپتان کو میسر فرصت کے لمحات اور بہترین کھانے پینے کی سہولت کا قصہ
جس طرح کی خوراک‘ سہولت اور علاج کپتان کو جیل میں حاصل ہے‘ اس کیلئے تو اچھے اچھے آزاد شہری ترستے ہیں۔ اب نجانے کتنے پپیٹو‘ چٹخورے جیل جانے کی خواہش کریں گے۔ مگر یاد رہے یہ عیاشیاں عام قیدیوں کے نصیب میں نہیں۔وہ تو ان چیزوں کی خوشبو بھی نہیں سونگھ پاتے۔ عوام پریشان ہیں کہ جب پی ٹی آئی والے جیل میں ملاقات کے بعدباہر آتے ہیں تو وہ الگ ظلم و ستم کی غمناک کہانیاں سناتے ہیں کہ ترس آتا ہے۔ ایک لیڈر جیل میں کتنی سختیاں جھیل رہا ہے جبکہ انتظامیہ کہتی ہے کہ قانون کے مطابق انہیں بی کلاس کی تمام سہولتیں حاصل ہیں۔ باقی رعاتیں عدالتی حکم پر انہیں میسر ہیں۔ ان سب کو چھوڑیں۔‘ وزرش کی مشین ہو یا ایکسرسائز والی سائیکل‘ یہ کم از کم ایک کال کوٹھڑی میں تو سما نہیں سکتے۔ نہ واک کیلئے وہاں جگہ ہوتی ہے۔ بیڈ اور ڈائننگ ٹیبل کہاں سے سما سکیں گے۔ عوام کو ان باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ہاں مگر کپتان کی خوراک … صبح‘ دوپہر شام اور رات کے کھانے کا مینیو دیکھ کر سب کی رال ٹپکتی نظر آرہی ہے۔ بہترین اے کلاس ناشتہ‘ جس میں دیسی انڈے‘ سلائس دودھ‘ دہی‘ کھجور کافی چقندر کا جوس شامل ہے۔ کھانے میں دیسی گھی میں بنا ہوا مٹن یا دیسی مرغ دال یا سبزی شام کو سینڈوچ‘ ناریل کا پانی و دیگر لوازمات۔ اسی طرح رات کوبھی دیسی مقوی کھانا۔بھلایہ سب کچھ متوسط یا اچھے شہریوں کو کہیں میسر ہیں۔ تو اس کا جواب کیا ہو گا‘ سب خود اپنے دل و دماغ سے سوچ کر بتائیں۔ یہ سب کچھ کپتان کی مرضی سے ان کا مشقتی بناتا ہے جو ماہر باورچی بھی ہے۔ شاید اسیلئے تحریک انصاف کے بانی یا تو خود جیل سے باہر آنا نہیں چاہتے کہ پھر یہ مفت کی عیاشی کہاں‘ ہر طرف مسائل ہی مسائل سامنے ہونگے۔ گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے۔ والا ماحول کہاں ملے گا۔ خود پی ٹی آئی کے بہت سے رہنما بھی یہی چاہتے ہیں کہ بانی جیل میں بیٹھ کر ہی سیاست کے تانے بانے بنتے رہیں۔ اور انہیں کھل کھیلنے کا موقع ملتا رہے۔ کہتے ہیں ناں ’’ساس ہمارے گھر نہیں‘ ہم کو کسی کا ڈر نہیں‘‘ کپتان باہر آگئے تو پھر یہ آزادی سے وکٹ کے ہر طرف کھیلنے کا موقع کہاں ملے گا۔ ان کا چراغ کہاں جلے گا۔ لوگ پہلے بھی انہیں کہاں جانتے تھے۔ وہ ایک بار پھر طاق نسیاں ہو جائیں گے۔ شاید ہی کسی کو ان کا نام بھی یاد رہے۔
شاید یہی جانتے ہوئے اڈیالہ کے قیدی نے اپنی ملاقات کیلئے آنے والے رہنمائوں کو خوب اور وہ بھی کھری کھری سنائیں۔
٭…٭…٭
طالبان نے میڈیا پر جانداروں کی تصاویر چھاپنے دکھانے پر پابندی لگادی۔
اگر میڈیا پر انسانوں کی تصاویر نہیں چلیں گی تو کیا جانوروں اور پرندوں کی تصاویر سے کام چلایا جائیگا۔ طالبان لگتا ہے عقل استعمال ہی نہیں کرتے۔ انہیں دماغ استعمال کرنے کا شوق نہیں یا وہ دماغ سے خالی ہیں۔ انکے ایسے اقدامات سے نہ صرف دنیا میں جگ ہنسائی ہوتی ہے بلکہ اسلام کے بارے میں لوگوں کو منفی پراپیگنڈہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہمارے افغان بھائی ابھی تک پتھر کے دور کہہ لیں‘ یا زمانہ تاریک میں رہ رہے ہیں اسے میں رہنا پسند کرتے ہیں۔۔ اسی طرح عورتوں کے حوالے سے پھر وہی پرانی تنگ نظری کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ انکی تعلیم پر مکمل پابندی سخت کردی گئی ہے۔ پہلے ہی وہ نہ باہر جا سکتی ہیں نہ ملازمت کر سکتی ہیں۔ تنہا سفر کا تو تصور ہی نہیں۔ وہ طالبان ٹوپی والے برقعے کو اسلامی برقعے سمجھتے ہیں تو انکی مرضی‘ ایسا برقعہ کسی بھی اسلامی ملک میں رائج نہیں۔ یہ مکمل افغان معاشرے کا پردہ یعنی برقعہ ہے۔ اب اسکے علاوہ باقی سب حجاب کو غلط کہنا زیادتی ہے۔ ورنہ عرب ممالک کا حجاب ہی اصل اسلامی برقعہ کہلانے کا زیادہ حقدار ہے۔ ایک طرف دنیا میں طالبان کو خواتین اور انسانی حقوق کے حوالے سے اپنا ریکارڈ درست کرنے کا کہہ رہی ہے‘ عوام کے حقوق بحال کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے‘ مگر طالبان وہی اپنی بات پر اڑے ہوئے ہیں۔ خود افغانستان میں انکی پالیسیوں کیخلاف خواتین‘ مذہبی اقلیتیں اور شمالی افغانستان کے فارسی بولنے والے ان سے نالاں ہیں‘ اب ایسے الٹے سیدھے فیصلے اور بھی انکی راہ میں مشکلات بڑھا سکتے ہیں۔ مگر طالبان کسی کی سنتے ہی نہیں۔ انکے نزدیک حق اور سچ وہی ہے جو وہ کہتے ہیں۔ اسی لئے دنیا میں کسی کے ساتھ افغانوں کی بنتی نہیں۔ ویسے بھی خود کو عقل کل سمجھنے والوں کا یہی المیہ ہے۔ اب تو لگتا ہے برقعہ پہن کر بھی کسی مرد یا عورت کو میڈیا پر آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔تو کیا گد ھوں ،گھوڑوں کو اب میڈیا پر کام کی تربیت دی جائے گی
٭…٭…٭
غزہ کے متاثرین کیلئے مزید 600 ٹن امدادی سامان بھیجا جائیگا‘ سامان میعاری ہو‘ وزیراعظم۔
پاکستان بھی حسب المقدور غزہ متاثرین کیلئے غذائی امداد ادویات اور خیمے و کمبل فراہم کرنے میں پیش پیش ہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم نے مزید 600 ٹن سامان غزہ بھجوانے کاحکم دیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اچھا اور معیاری سامان بھجوایا جائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم اپنی قوم کے دونمبری اور ہیرا پھیری والے مزاج سے بخوبی واقف ہیں کہ اوپر اوپر اچھا مال رکھ کر بول کس طرح دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں جبکہ بوری یا کریٹ میں نیچے خراب ناقص مال بھرا ہوا ہوتا ہے۔ اس د و نمبری کی وجہ سے دنیا بھر میں ہماری ساکھ بے حد خراب ہے۔ ہم سے لین دین اور سودا کرتے ہوئے لوگ گھبراتے ہیں۔ جس ملک میں آنکھیں کھول کر مال چیک کرنے والوں کو بھی دھوکا ملتا ہے‘ وہ بے چارے پوری قیمت ادا کرکے بھی اوپر اچھا اور نیچے خراب مال لے آتے ہیں۔ اس ملک سے جو مال باہر جائیگا‘ اسکی گارنٹی کون دے۔ اور پھر یہ تو امدادی سامان ہے‘ اس میں تو ہمارے تاجر دل کھول کر دونمبری کریں گے۔ یوں 10 پر 20 کا منافع کمائیں گے کہ یہاں کونسی چیکنگ ہونی ہے اور غزہ میں کون چیک کریگا کہ اچھا مال ہے یا ناقص۔ یوں یہ لوگ دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی آخرت کا بھی خانہ خراب کرتے ہوئے رتی بھر نہیں ہچکچاتے۔ اب ہماری عزت اسی میں ہے کہ ہم ملک سے باہر چاہے امدادی سامان بھیجیں یا مارکیٹ میں‘ سامان ہمیں ٹھونک بجا کر معیار چیک کرنا چاہیے تاکہ دو نمبری کرنے والوں کو موقع نہ ملے اور ہماری مزید بے عزتی نہ ہو۔ عالمی منڈی میں ہمارے مال کی اسی دونمبری کی وجہ سے کوئی وقعت نہیں جبکہ بھارت جیسا ملک ہمارے چاول اور نمک پر اپنا لیبل لگا کر دھڑا دھڑ مارکیٹ میں اپنی جگہ بنا چکا ہے کیونکہ وہ کم از کم عالمی منڈی میں دونمبری کا مال فروخت نہیں کرتا اور ہمیں اپنی پراڈکٹ عالمی منڈی میں لانے کیلئے تگ و دو کرنا پڑی ہے۔
٭…٭…٭