رزق حلال کی اہمیت و اثرات(۲)

قرآن مجید فرقان حمید میں حرام کھانے اور کمانے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور آپس میں ایک دوسرے کا مال نا حق نہ کھائو۔ (سورۃ البقرۃ) 
ہمارا دین کسی صورت بھی باطل اور غلط طریقے سے مال حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اس عمل کوسخت نا پسند کیا گیا ہے ۔ رشوت، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، جھوٹی قسمیں، سود اور جوا اس قسم کے ناجائز ذرائع اسلام میں حرام ہیں ان سے معاشی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے، فرد اور محنت کی بے قدری ہوتی ہے اور ان برے کاموں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ضرور پکڑ فرمائے گا۔ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا، رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں جہنم میں ہیں ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا، ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی بندہ حرام مال کمائے اور اس میں سے اللہ کی راہ میں صدقہ کرے اور اس کا صدقہ قبول ہو اور اس میں سے خرچ کرے تو اس میں برکت ہو اور جو شخص حرام مال پیچھے چھوڑ جائے تو وہ اس کے لیے جہنم کا توشہ ہے یقینا اللہ تعالیٰ بدی کو بدی سے نہیں مٹاتا بلکہ بدی کو نیکی مٹاتی ہے یہ حقیقت ہے کہ گندگی گندگی کو نہیں دھو سکتی۔ (مسند احمد) 
ذخیرہ اندوزی کرنااور کم ناپنا اور تولنا بھی لعنت کا باعث ہے۔ اسلام میں کسی بھی ایسے عمل کو پسند نہیں کیا جاتا جس میں دوسروں کے ساتھ زیادتی ہو اور ان کی حق تلفی ہو۔ مال کی محبت کے ساتھ باقاعدہ صدقات ، زکوٰۃ اور خیرات و انفاق کا نظام قائم کیا کہ نفس پاکیزہ رہے۔ انسان مال و زر کی محبت میں اندھا نہ ہو جائے اور خود غرض اور لالچی نہ بن جائے۔ 
آپؐ نے فرمایا، جس نے پاک کمائی پر گزارہ کیا میری سنت پر عمل کیا لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھا تو یہ شخص جنتی ہے اور بہشت میں داخل ہو گا۔ صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہﷺ، اس زمانے میں تو ایسے لوگ کثرت سے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا، میرے بعد بھی ایسے لوگ ہوںگے ۔ (ترمذی) 
ہمیں دین کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے خصوصی طور پر اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہمارے کھانے میں ذرا بھی حرام کی آمیزش نہ ہو۔ لباس پاک ہو، جذبات پاکیزہ ہوں حرام کھانے والا جتنی بھی عبادت کر لے اس کی کمر جھک جائے اس کی نہ ہی عبادت قبول ہو گی اور نہ ہی صدقات و خیرات ۔ حلا ل کمانے والے اور کھانے والے کی عبادت و صدقات قبول ہو ں گے اور اس میں تقوی کی صفت پیدا ہوگی جو دنیا و آخرت میںکامیابی کی ضامن ہے۔

ای پیپر دی نیشن