آئینی ترمیم پر اتفاق رائے

جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن نے 19 اکتوبر کورات گئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ان کی کئی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے وفد سے بھی ملاقات ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ان کو حکومتی رویوں سے شکایت رہی ہے تاہم میرے پاس جو پی ٹی آئی کا پیغام آیا وہ بہت مثبت تھا۔ طویل مشاورت کے بعد بلاول بھٹو زرداری اور جے یو آئی نے آئینی ترمیم بل پر اتفاق حاصل کیا تھا۔ ہم نے ابتدائی مسودے کو مسترد کر دیا تھا تاہم ہمارے جو بھی اعتراضات تھے حکومت ان سے دستبردار ہو گئی۔ اس وقت جو بل موجود ہے اس حوالے سے کوئی بڑا متنازع نقطہ نہیں ہے، اب آئینی ترمیمی بل ہماری طرف سے مکمل ہے۔ اس کا آخری ڈرافٹ تیار کر لیا گیا ہے۔ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب تھوڑے سے فرق کے ساتھ 14 ستمبر کی رات کا ایکشن ری پلے تھی۔ اس رات حکومت کی طرف سے 26 ویں ترمیم منظور کرانے کی پوری تیاری تھی اور اس کام کے لیے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس طلب کر لیے گئے تھے۔مولانا فضل الرحمن کی حمایت کی حکومتی اتحاد کوامید تھی مگر وہ مکمل طور پر نہ مل سکی۔ اس کے بعد ڈیڑھ ماہ کے دوران جوڑ توڑ ہوتے رہے۔ دعوؤں اور دھمکیوں کا سلسلہ جاری رہا۔کبھی اتفاق ہوتا نظر آتا تو کبھی اختلافات سر اٹھاتے۔ اس دوران ملک میں ایک ہیجانی کیفیت نظر آرہی تھی۔ آخر کار حکومت کی طرف سے 19 اکتوبر کو قومی اسمبلی، سینیٹ اور وفاقی کابینہ کے اجلاس بلائے گئے۔ آدھی رات تک اجلاسوں کا وقت تبدیل ہوتا رہا۔ بالآخر معاملہ اگلے روز یعنی اتوار تک چلا گیا۔ مولانا فضل الرحمن تحریک انصاف کو بھی اتفاق رائے کا حصہ بنانے کے لیے کوشاں رہے۔ اس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوگئے جس کے بعد تحریک انصاف کی طرف سے ترمیم کا حمایت کا عندیہ ملا۔ اس سارے عرصے کے دوران 26 ویں ترمیم کے حوالے سے کئی سوالات سر اٹھاتے رہے، جو اب بھی جواب طلب ہیں۔ اس ترمیم کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ قوم اور ملک کو اس سے کیا فائدہ ہوگا ؟ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ ریاست کے ستون ہیں، مجوزہ ترامیم کے بعد ان کے مابین ربط و ضبط میں کتنی بہتری آئے گی؟ اس سے یہ ادارے اجتماعی اور انفرادی طور پر کتنے مضبوط ہوں گے؟ اس ترمیم کے طویل مدتی ثمرات کیا ہوں گے؟ عوام کے روٹی روزی کے مسائل حل کرنے میں یہ ترمیم کتنی ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے؟ کیا یہ ترمیم ایک طبقے کی طرف سے معروضی حالات کو سامنے رکھ کر سیاسی مفادات کے حصول کے لیے کی جا رہی ہے ؟

ای پیپر دی نیشن