پولیو کیسز میں اضافہ اور عوامی آگاہی مہم کی ضرورت

Oct 21, 2024

 پاکستان میں پولیو کے مزید چار کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک کیس خیبر پختونخوا اور تین کیسز بلوچستان سے رپورٹ ہوئے جس کے بعد ملک بھر سے رواں برس کے دوران سامنے آنے والے پولیو کیسز کی مجموعی تعداد 39 ہو گئی ہے۔ اس سال میں پورے ملک سے پولیو کے جو کیس رپورٹ ہوئے ان میں سے 20 بلوچستان، 12 سندھ، 5 خیبر پختونخوا اور ایک ایک پنجاب اور اسلام آباد سے رپورٹ ہوئے۔ نئے رپورٹ ہونے والے کیسز میں سے لکی مروت سے 30 ماہ کی لڑکی، پشین کی 18 ماہ کی لڑکی، چمن سے 9 ماہ کا لڑکا اور نوشکی سے 5 سالہ لڑکا اس بیماری کا شکار ہوئے۔ 
ادھر، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے پولیو وائرس کے ماحولیاتی نمونے ختم کرنے کے لیے قابل عمل اور پائیدار پلان طلب کر لیا ہے۔ مریم نواز شریف نے پنجاب کے تمام انٹری پوائنٹس پر مؤثر ویکسی نیشن مہم شروع کرنے کی ہدایت کی اور پولیو وائرس کے مکمل خاتمے کا ہدف حاصل کرنے کے لیے جامع اور مؤثر ویکسی نیشن مہم کا حکم دیا ہے۔ وزیراعلیٰ کی زیر صدارت پولیو کے خاتمے سے متعلق اجلاس میں ویکسی نیشن مہم کو مزید مؤثر بنانے کے لیے مائیکرو پلان اور پنجاب کو مکمل طور پر پولیو فری بنانے کے لیے تجاویز اور سفارشات کا جائزہ لیا گیا۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ پنجاب کو مکمل طور پر پولیو فری بنانا ہمارا عزم ہے۔ ویکسی نیشن مہم کی ذاتی طور پر نگرانی کر رہی ہوں۔ عوام کے بھرپور تعاون کے ذریعے ہی پولیو وائرس کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ ویکسی نیشن مہم کے دوران حفاظتی تدابیر کے مطابق کولڈ چین بھی یقینی بنائی جائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب میں وائرس سرکولیشن بڑھنا تشویش ناک امر ہے۔ پولیو ویکسی نیشن کے حوالے سے کمزور اضلاع پر بھرپور توجہ دی جائے۔
دنیا بھر میں اس وقت صرف تین ممالک ایسے ہیں جہاں یہ بیماری اب تک موجود ہے اور ان میں پاکستان کے علاوہ افغانستان اور نائجیریا شامل ہیں۔ پاکستان میں پولیو کے خاتمے کا پروگرام تین دہائیاں پہلے 1994ء میں شروع کیا گیا تھا جس کے نہایت مثبت نتائج سامنے آئے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسف کے مطابق، 1990ء کی دہائی کے آغاز میں پاکستان سے سالانہ بنیادوں پر 20 ہزار پولیو کیسز رپورٹ ہورہے تھے۔ حکومت کی طرف سے کیے جانے والے مثبت اقدامات کے نتیجے میں 2021ء میں پورے ملک سے صرف ایک کیس رپورٹ ہوا جو بلوچستان سے سامنے آیا۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ 2022ء میں ان کیسز کی تعداد بڑھ کر 20 ہوگئی اور تمام کیسز خیبر پختونخوا سے رپورٹ ہوئے۔ سال 2023ء میں مجموعی طور پر پاکستان میں پولیو کے 6 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں 4 خیبر پختونخوا اور 2 سندھ سے سامنے آئے۔
رواں برس کے تقریباً ساڑھے دس مہینے میں 39کیسوں کا رپورٹ ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس سلسلے میں حکومتی اقدامات کو اس سنجیدگی سے آگے نہیں بڑھایا جارہا جیسے یہ کام پہلے کیا جارہا تھا۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ پولیو پروگرام کے لیے حکومت کی طرف سے مختص کی جانے والی رقم رواں برس آدھی سے بھی کم ہوگئی ہے۔ حکومت نے 2022ء میں پولیو کے خاتمے کے قومی پروگرام کے لیے 180 ملین ڈالر کی رقم مختص کی تھی جو 2023ء میں بڑھا کر 187 ملین ڈالر کردی گئی لیکن 2024ء میں اس رقم میں 57 فیصد کمی کرتے ہوئے اسے صرف 80 ملین ڈالر کردیا گیا۔ اس صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت پولیو کے خاتمے کے معاملے میں اتنی سنجیدہ اور حساس نہیں رہی جتنی یہ پہلے تھی۔
2020ء کے بعد رواں سال میں پولیو کے کیسوں میں اضافہ دکھائی دے رہا ہے جو حکومت کے لیے شدید تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔ 2020ء میں ملک بھر سے پولیو کے 84 کیس رپورٹ ہوئے تھے جن میں سے 26 بلوچستان، 22 سندھ، 22 خیبر پختونخوا اور 14 پنجاب سے سامنے آئے۔ گزشتہ دس برس کے اعداد شمار کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس سلسلے میں 2019ء سب سے افسوس ناک سال رہا جس کے دوران پورے ملک سے پولیو کے کل 147کیس رپورٹ ہوئے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ گزشتہ دس سال کے دوران آزاد کشمیر سے پولیو کا ایک بھی کیس رپورٹ نہیں ہوا اور اس عرصے کے دوران گلگت بلتستان سے صرف ایک کیس سامنے آیا جو 2017ء میں رپورٹ ہوا۔ وفاقی دارالحکومت سے بھی ان دس برسوں میں صرف ایک کیس رپورٹ ہوا ہے جو رواں برس سامنے آیا ہے۔
2024ء کے دوران پولیو کے کیسز میں جو اضافہ ہوا ہے وہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ اس بیماری کے حوالے سے دنیا بھر میں بہت سنجیدگی اور حساسیت پائی جاتی ہے اور پاکستان میں اب تک اس کا موجود ہونا صرف افسوس ناک ہی نہیں قابلِ مذمت بھی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ تازہ صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے پولیو کے خاتمے سے متعلق رواں سال کی پالیسی کا نئے سرے سے جائزہ لیں اور جہاں کہیں خامیاں دکھائی دیتی ہیں انھیں فوری طور پر دور کریں۔ اگر فنڈز کی کمی کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے کہ حکومت اس سلسلے میں مزید فنڈز مختص کرے تاکہ اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔ اس حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ پولیو ویکسین سے متعلق عوام میں جو غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں انھیں دور کرنے کے لیے قومی سطح پر عوامی آگاہی مہم چلانے کی اشد ضرورت ہے۔

مزیدخبریں