سیاست اور فوج: مداخلت، وجوہات اور جمہوریت کی تقویت

پاکستان کا جوہری طاقت ہونا اور اس کی مضبوط فوجی صلاحیتیں یقیناً اس کی بقا کے لیے اہم عوامل ہیں، لیکن یہ کہنا کہ پاکستان صرف انہی عوامل کی وجہ سے زندہ رہے گا، ایک جامع نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتا۔ جوہری صلاحیت اور مضبوط فوج ایک ملک کی سیکیورٹی کو مضبوط کرتی ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ سیاسی استحکام، معاشی ترقی، اور سماجی ہم آہنگی بھی ملک کی بقا کے لیے لازمی ہیں۔ 
پاکستان نے 28 مئی 1998 کو بلوچستان کے علاقے چاغی میں کامیاب جوہری تجربات کیے، جس کے بعد وہ دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی پہلی اور واحد جوہری طاقت بن گیا۔ یہ جوہری صلاحیت اس کے دفاع کو مضبوط بنانے اور خطے میں استحکام پیدا کرنے کے لیے انتہائی اہم ثابت ہوئی۔ پاکستان کی جوہری پالیسی کا بنیادی مقصد "کم از کم قابل اعتماد ڈیٹرنس ‘‘پر مبنی ہے، یعنی پاکستان اپنی جوہری صلاحیت کو صرف اور صرف دفاعی مقاصد کے لیے رکھتا ہے اور اس کا استعمال جارحیت کے لیے نہیں کرنا چاہتا۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں، یہ جوہری صلاحیت جنوبی ایشیا میں ایک اسٹریٹجک توازن قائم کرنے میں معاون ثابت ہوئی ہے، کیونکہ بھارت 1974 میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کر چکا تھا۔ پاکستان کا جوہری پروگرام خطے میں امن کے قیام کے لیے ایک حفاظتی دیوار کی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ کسی بھی ممکنہ جارحیت کو روکنے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کے اس اقدام نے نہ صرف خطے میں طاقت کا توازن قائم کیا بلکہ اس نے قومی دفاع کے سلسلے میں عوام کا اعتماد بھی مضبوط کیا۔
پاکستان کی فوج دنیا کی چھٹی سب سے بڑی فوج ہے، جس میں تقریباً 650,000 فعال فوجی شامل ہیں جبکہ اس کے ساتھ تقریباً 500,000 ریزرو فورسز بھی ہیں۔ پاکستانی فوج کا کردار ملک کی اندرونی اور بیرونی سرحدوں کی حفاظت میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے، خاص طور پر بھارت اور افغانستان کے ساتھ سرحدی تناؤ کے دوران۔ داخلی سطح پر، فوج نے دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ 
پاکستانی فوج کی پیشہ ورانہ تربیت اور جدید ہتھیاروں کی دستیابی نے اسے ایک مضبوط دفاعی قوت میں تبدیل کر دیا ہے۔ تربیت یافتہ افواج، جدید ٹیکنالوجی، اور جدید جنگی سازوسامان جیسے ڈرونز، میزائل سسٹمز، اور ایویونکس نے اس کی حربی صلاحیتوں کو مزید مستحکم کیا ہے۔ اس کے علاوہ، پاکستانی فوج نے مختلف بین الاقوامی عسکری تربیتی مشقوں میں بھی حصہ لیا ہے، جس سے اس کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو بہتر بنانے میں اقوام متحدہ کے امن مشن میں پاکستانی فوج کا کردار کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستانی فوج نے اقوام متحدہ کے امن مشنز میں تقریباً 200,000 سے زائد فوجی اہلکار فراہم کیے ہیں، جو مختلف افریقی اور ایشیائی ممالک میں قیامِ امن کے لیے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ پاکستانی اہلکاروں کی ان خدمات کو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا ہے، جس نے پاکستان کی ساکھ کو اقوامِ عالم میں مزید بہتر کیا ہے۔ ان امن مشنز میں پاکستان کی شمولیت نے نہ صرف عالمی برادری میں اس کے مثبت کردار کو اجاگر کیا بلکہ پاکستان کے فوجی اہلکاروں کے تجربے اور تربیت میں بھی اضافہ کیا۔ یہ تمام عوامل پاکستان کے لیے بین الاقوامی سطح پر ایک ذمہ دار ملک کی پہچان بنانے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔
تاہم، صرف جوہری طاقت اور مضبوط فوج ملک کی بقا کے لیے کافی نہیں ہیں۔ معاشی ترقی اور سیاسی استحکام بھی پاکستان کے مستقبل کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ 2024 میں پاکستان کی معیشت کا حجم تقریباً 350 ارب ڈالرہے ، لیکن اس کے ساتھ ہی ملک کو متعدد معاشی مشکلات کا سامنا ہے، جن میں سب سے نمایاں مالی خسارہ، بیرونی قرضوں کا بوجھ، اور بلند شرحِ مہنگائی ہیں۔ پاکستان کی مہنگائی نے عام شہریوں کی زندگی کو مشکل بنا دیا۔ پاکستان پر 130ارب ڈالر سے زائد کا بیرونی قرضہ بھی ہے، جس کی وجہ سے معیشت پر اضافی دباؤ ہے اور ڈیفالٹ کا خطرہ بھی موجود رہا ہے۔
معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے پاکستان کو بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہوگا، جس کے لیے سیاسی استحکام اور کاروبار دوست ماحول ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی صنعتوں کی ترقی پر زور دینا ہو گا تاکہ برآمدات میں اضافہ کیا جا سکے اور درآمدات پر انحصار کم ہو۔ زراعت، ٹیکنالوجی، اور سروسز کے شعبے میں بہتری سے معیشت کو متنوع بنایا جا سکتا ہے، جو معیشت کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔ بیرونی قرضوں پر انحصار کم کرنے کے لیے پاکستان کو مالیاتی نظم و ضبط اختیار کرنا ہو گا اور معیشت کو خود انحصاری کی طرف لے جانا ہو گا، تاکہ قرضوں کا بوجھ کم ہو سکے اور ملک کا مالیاتی نظام مستحکم ہو۔ ان اقدامات کے بغیر، صرف دفاعی صلاحیتیں پاکستان کی دیرپا بقا اور ترقی کی ضمانت نہیں دے سکتیں۔
سیاسی استحکام کا فقدان پاکستان کی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ بار بار حکومتوں کی تبدیلی، سیاسی جماعتوں کے درمیان باہمی اختلافات، اور پالیسیوں میں عدم تسلسل نے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ اگر پاکستان کی سیاسی جماعتیں ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ایک مشترکہ قومی بیانیہ پر متفق ہو جائیں، تو یہ ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ مشترکہ قومی ایجنڈا بنانے سے طویل مدتی منصوبہ بندی میں تسلسل پیدا ہو سکتا ہے، جس سے عوامی فلاح و بہبود، معاشی استحکام، اور بنیادی مسائل جیسے تعلیم، صحت، اور روزگار کے مواقع میں بہتری آئے گی۔
عوامی مسائل کے حل کے لیے سیاسی جماعتوں کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر آ کر پالیسیز بنانا اور ان پر عمل درآمد کرنا نہ صرف عوام کا اعتماد بحال کر سکتا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو بھی بہتر بنا سکتا ہے۔ جب دنیا دیکھے گی کہ پاکستان کی سیاسی قیادت ملکی مفاد میں متحد ہو کر کام کر رہی ہے، تو یہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے ایک مثبت پیغام ہوگا، جس سے معاشی ترقی کے دروازے کھلیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ، سیاسی استحکام سے ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہو گی، جو کہ داخلی سلامتی اور معیشت دونوں کے لیے سودمند ثابت ہوگی۔
یہ تاثر کہ فوج سیاست میں تب ہی مداخلت کرتی ہے جب سیاستدان ذاتی مفادات کے لیے کام کرتے ہیں، ایک پیچیدہ حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں سیاسی عدم استحکام اور اقتدار کی کشمکش نے اکثر ریاستی اداروں کے درمیان طاقت کے عدم توازن کو جنم دیا ہے۔ جب منتخب حکومتیں قومی مفادات کو نظر انداز کر کے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتی ہیں یا حکومتی کارکردگی میں شدید ناکامی کا سامنا کرتی ہیں، تو ایسی صورت میں عوام میں مایوسی بڑھتی ہے اور ریاست کا انتظامی خلاء￿  پیدا ہوتا ہے۔ ایسے مواقع پر فوج نے ماضی میں مداخلت کی ہے اور اپنے کردار کو ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔
تاہم، جمہوریت کا اصل مقصد یہ ہے کہ عوام اپنے ووٹ کے ذریعے ان رہنماؤں کا احتساب کریں اور انہیں بہتر قیادت منتخب کرنے کا اختیار حاصل ہو۔ سیاستدان اگر دیانت داری، شفافیت، اور عوامی فلاح و بہبود کو ترجیح دیں تو جمہوری نظام مضبوط ہو سکتا ہے، اور اس طرح فوج کے لیے مداخلت کا جواز ختم ہو جاتا ہے۔ فوج کا آئینی کردار سرحدوں کی حفاظت اور ملک کی سلامتی ہے، اور یہ اسی صورت میں اپنے دائرہ کار تک محدود رہ سکتا ہے جب سیاستدان قومی مفاد میں مستحکم اور عوام دوست پالیسیز اختیار کریں۔
جمہوریت کے تسلسل اور سیاسی استحکام سے نہ صرف سیاسی مداخلت کے امکانات کم ہوں گے بلکہ فوج اور سول اداروں کے درمیان ہم آہنگی بھی پیدا ہو گی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سیاستدان عوام کا اعتماد بحال کریں، ملکی مفاد میں مل کر کام کریں، اور اداروں کی آئینی حدود کا احترام کریں، تاکہ طاقت کے مراکز کے درمیان توازن قائم رہے اور پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔



 



ای پیپر دی نیشن