سینیٹ سے منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں بھی 26ویں آئینی ترامیم کی تمام 27 شقیں منظور کرلی گئی ہیں۔ قومی اسمبلی سے بھی منظوری کے بعد مسودہ فوری طور پر صدر کو بھجوایا گیا ہے۔ صدر آصف زرداری کے مسودہ پر دستخط کے ساتھ ہی چھبیسویں آئینی ترمیم آئین کا حصہ بن جائے گی۔ دونوں ایوانوں سے منظور چھبیسویں ویں آئینی ترمیم میں کیا کیا ہے۔
اہم نکات:
ترمیم کے تحت چیف جسٹس سپریم کورٹ کا تقرر سنیارٹی کی بنیاد پر نہیں ہوگا۔
12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی تین سینئر ترین ججز میں سے چیف جسٹس کا تقرر کرے گی۔
چیف جسٹس کی مدتِ ملازمت 3 سال ہوگی، عمر کی بالائی حد 65 سال مقرر کی گئی ہے۔
وزیرِ اعظم کمیٹی کی سفارش پر چیف جسٹس کا نام صدر کو ارسال کریں گے۔
وزیرِ اعظم یا کابینہ کی تجویز پر کوئی عدالت، ٹریبونل یا اتھارٹی سوال نہیں اٹھا سکتی۔
پارلیمانی کمیٹی میں تمام پارلیمانی جماعتوں کی متناسب نمائندگی ہوگی۔
کمیٹی میں 8 ارکان قومی اسمبلی اور 4 ارکان سینیٹ ہوں گے۔
سپریم کورٹ اپنے طور پر کوئی ہدایت یا ڈیکلریشن نہیں دے سکتی۔
سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے کسی بھی کیس کو کسی دوسری ہائی کورٹ یا اپنے پاس منتقل کر سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے ججز کا تقرر جوڈیشل کمیشن کرے گا۔
چیف جسٹس کی زیرِ صدارت کمیشن میں آئینی بینچز کا سینئر ترین جج بھی شامل ہوگا۔
جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تعین کرے گا۔
کسی بھی آئینی بینچ میں شامل سینئر ترین جج آئینی بینچ کاسربراہ ہو گا۔
از خود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہوگا۔
آئین کی تشریح سے متعلق کیس آئینی بینچز کے دائرہ اختیار میں آئیں گے۔
سپریم کورٹ اور صوبوں میں قائم ہائی کورٹس میں آئینی بینچ تشکیل دیے جائیں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں آئین سے متعلق بینچز کی تشکیل کے لیے قومی اسمبلی سے قرارداد منظور کرانا ہوگی۔
صوبائی ہائی کورٹس میں آئینی بینچوں کی تشکیل کے لیے صوبائی اسمبلیاں قرارداد منظور کریں گی۔
پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں میں قانون سازی پر اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے لی جا سکے گی۔