افغانستان پر امرےکی حملے اور قبضے کے بعد ڈےڑھ لاکھ کے لگ بھگ انسان موت کے منہ مےں جا چکے ہےں۔ بموں اور بارود سے متاثر اور معذور ہونے والوں کی تعداد مرنے والوں سے کہےں زےادہ ہے ان مےں سے اکثر مرنے سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہےں۔ بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد کا کوئی شمار نہںے اور جو اپنے گھروں مےں موجود ہےں ان کا روزگار ختم، کھےتےاں برباد، بھوک اور ننگ ان کا مقدر ہے۔ افغانستان مےں اگر خوشحالی ہے تو وہ کابل اور چند خاندانوں تک محدود ہے۔
فتح کا تصور بڑا سہانا اور غےرت مند قوموں کے لئے شکست وہزےمت مرمٹنے کا مقام ہوتا ہے۔ افغانستان مےں امرےکہ اور اس کے اتحادی فتح کے حسےن سپنے سجا کر آئے لےکن ان کا سامنا تارےخ مےں کبھی بھی شکست تسلےم نہ کرنے والی افغان قوم سے ہوگےا۔ 8سال مےں فتح کے سپنے پورے ہوسکے نہ امرےکی اپنے کسی ظاہری منصوبے مےں کامےاب۔ جنگ کا دائرہ پھےلتے پھےلتے عراق اور پھر پاکستان پھےل گےا۔ اےران مےں بھی اس تپش محسوس ہونے لگی۔ ہر جگہ انسانوں کی لاشوں کے پشتے لگتے گئے ےہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس کا انجام کےا ہوگا اس کا کچھ کچھ اندازہ فتح کی امےدےں لگا نے والوں کو ہورہا ہے۔ دفاع پر مجبور افغان اپنی آزادی خود مختاری اور غےرت وخود مختاری کی خاطر اپنی نسلےں قربان کرتے چلے جارہے ہےں۔ وہ ہار ماننے پر تارےخ مےں کبھی تےار نہ تھے نہ اب ہےں۔
مےڈےا رپورٹس کے مطابق چند روز قبل اےک امرےکی اور تےن برطانوی جرنےلوں نے باہم سوچ بچار کے بعد قرار دےا کہ طالبان کو شکست دےنا بہت مشکل ہے۔ جنوبی افغانستان مےں 9ہزار برطانوی فوجےوں کی کمان سنبھالنے والے مےجر جنرل لک کارٹر نے اعتراف کےا ہے ”کہ طالبان کی کارروائےوں مےں بدستور شدت پائی جاتی ہے مےں صاف صاف کہتا ہوں کہ وقت ہمارا ساتھ نہےں دے رہا۔ ہم افغانستان مےں ہرجگہ موجود نہےں ہوسکتے۔ ہوسکے تو طالبان کے ساتھ بات چےت کی جائے۔
جنرل کارٹر کا تجربہ بالکل درست ہے اور لگتا ہے کہ انہوں نے اپنی تارےخ کا بغور مطالعہ کر رکھا ہے ہر مسئلہ بندوق اور توپ کی زبان سے حل نہےں ہوتا بلکہ کوئی بھی مسئلہ طاقت سے حل نہےں ہوتا۔ برطانوی جرنےلوں کو چاہےے کہ امرےکہ کو افغانوں کی تارےخ سے آگاہ کرےں روس کی شکست کی حد تک تو امرےکہ کو افغانوں کے حوصلے اور بہادری کا اندازہ ہے اسے 19وےں صدی کی تےسری دہائی کے بارے مےں بھی آگاہ کرنا چاہئے۔
برطانےہ نے رےٹائرڈ لےفٹےننٹ جنرل گرےم لےمب کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے کابل بھےجا ہے۔ لےمب عراق مےں فرائض انجام دے چکے ہےں ان کا موقف ہے کہ دہشت گردی کو دہشت گردی سے نہےں روکا جاسکتا۔ مذاکرات بہت سے مسائل کا حل ہےں۔ اگر اتحادےوں کو مذاکرات کی افادےت کا ادراک ہوگےا ہے تو اچھے اور برے طالبان کی بحث مےں نہ پڑےں۔ جن طالبان کے ہاتھ مےں سے افغانستان کے 70 فےصد حصے کا کنٹرول ہے ان سے مذاکرات کرےں اگر اتحادی ان کو اپنی فوجوں کی واپسی کا ےقےن دلادےں تو طالبان ےقےناً مذاکرات پر آمادہ ہوں گے اس کےلئے تازہ ترےن مبےنہ فراڈ انتخابات کو کالعدم قرار دے کر غےر جانبدار قوت کے زےراہتمام انتخابات کرانا ہوں گے جس پر طالبان کو بھی اعتماد ہے ےہی افغانستان سے امرےکہ کی باعزت اور باوقار واپسی کا راستہ ہے۔
فتح کا تصور بڑا سہانا اور غےرت مند قوموں کے لئے شکست وہزےمت مرمٹنے کا مقام ہوتا ہے۔ افغانستان مےں امرےکہ اور اس کے اتحادی فتح کے حسےن سپنے سجا کر آئے لےکن ان کا سامنا تارےخ مےں کبھی بھی شکست تسلےم نہ کرنے والی افغان قوم سے ہوگےا۔ 8سال مےں فتح کے سپنے پورے ہوسکے نہ امرےکی اپنے کسی ظاہری منصوبے مےں کامےاب۔ جنگ کا دائرہ پھےلتے پھےلتے عراق اور پھر پاکستان پھےل گےا۔ اےران مےں بھی اس تپش محسوس ہونے لگی۔ ہر جگہ انسانوں کی لاشوں کے پشتے لگتے گئے ےہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس کا انجام کےا ہوگا اس کا کچھ کچھ اندازہ فتح کی امےدےں لگا نے والوں کو ہورہا ہے۔ دفاع پر مجبور افغان اپنی آزادی خود مختاری اور غےرت وخود مختاری کی خاطر اپنی نسلےں قربان کرتے چلے جارہے ہےں۔ وہ ہار ماننے پر تارےخ مےں کبھی تےار نہ تھے نہ اب ہےں۔
مےڈےا رپورٹس کے مطابق چند روز قبل اےک امرےکی اور تےن برطانوی جرنےلوں نے باہم سوچ بچار کے بعد قرار دےا کہ طالبان کو شکست دےنا بہت مشکل ہے۔ جنوبی افغانستان مےں 9ہزار برطانوی فوجےوں کی کمان سنبھالنے والے مےجر جنرل لک کارٹر نے اعتراف کےا ہے ”کہ طالبان کی کارروائےوں مےں بدستور شدت پائی جاتی ہے مےں صاف صاف کہتا ہوں کہ وقت ہمارا ساتھ نہےں دے رہا۔ ہم افغانستان مےں ہرجگہ موجود نہےں ہوسکتے۔ ہوسکے تو طالبان کے ساتھ بات چےت کی جائے۔
جنرل کارٹر کا تجربہ بالکل درست ہے اور لگتا ہے کہ انہوں نے اپنی تارےخ کا بغور مطالعہ کر رکھا ہے ہر مسئلہ بندوق اور توپ کی زبان سے حل نہےں ہوتا بلکہ کوئی بھی مسئلہ طاقت سے حل نہےں ہوتا۔ برطانوی جرنےلوں کو چاہےے کہ امرےکہ کو افغانوں کی تارےخ سے آگاہ کرےں روس کی شکست کی حد تک تو امرےکہ کو افغانوں کے حوصلے اور بہادری کا اندازہ ہے اسے 19وےں صدی کی تےسری دہائی کے بارے مےں بھی آگاہ کرنا چاہئے۔
برطانےہ نے رےٹائرڈ لےفٹےننٹ جنرل گرےم لےمب کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے کابل بھےجا ہے۔ لےمب عراق مےں فرائض انجام دے چکے ہےں ان کا موقف ہے کہ دہشت گردی کو دہشت گردی سے نہےں روکا جاسکتا۔ مذاکرات بہت سے مسائل کا حل ہےں۔ اگر اتحادےوں کو مذاکرات کی افادےت کا ادراک ہوگےا ہے تو اچھے اور برے طالبان کی بحث مےں نہ پڑےں۔ جن طالبان کے ہاتھ مےں سے افغانستان کے 70 فےصد حصے کا کنٹرول ہے ان سے مذاکرات کرےں اگر اتحادی ان کو اپنی فوجوں کی واپسی کا ےقےن دلادےں تو طالبان ےقےناً مذاکرات پر آمادہ ہوں گے اس کےلئے تازہ ترےن مبےنہ فراڈ انتخابات کو کالعدم قرار دے کر غےر جانبدار قوت کے زےراہتمام انتخابات کرانا ہوں گے جس پر طالبان کو بھی اعتماد ہے ےہی افغانستان سے امرےکہ کی باعزت اور باوقار واپسی کا راستہ ہے۔