راﺅ سکندر اقبال جب پیپلز پارٹی کا حصہ تھے اور پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر کے فرائض نبھا رہے تھے تو وہ اپنی پارٹی لیڈر محترمہ بے نظیر بھٹو کی عوامی مقبولیت سے لوگوں کو آگاہ کرنے کیلئے ایک بُری مثال دیا کرتے تھے۔ ان کے بقول جس طرح مکھیاں گڑ، شکر اور چینی پر بھنبھناتی نظر آتی ہیں، اسی طرح عوام ”بی بی“ کے ساتھ چپک جاتے ہیں۔ انہوں نے بی بی کو میٹھے اور عوام کو اس میٹھے پر منڈلانے والی مکھیوں کا درجہ دیا جبکہ آج شہید بی بی اور ان کے شہید بابا کی پیپلز پارٹی کے دور میں چینی زہر بنا دی گئی ہے اور عوام کو اپنے مسائل سے چھٹکارا پانے کیلئے خودکشی کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔
کیا تصور کیا جاسکتا ہے کہ حکومت اگر نیک نیتی کے ساتھ اپنی اتھارٹی کو بروئے کارلاتے ہوئے 40 روپے کلو چینی کی فروخت کیلئے لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے احکام پر عملدرآمد کرانا چاہتی تو شوگر مافیا پھر بھی اکڑ دکھاتے ہوئے میں نہ مانوں کی تکرار جاری رکھتا۔ عدالتی احکام کی تعمیل کیلئے حکومتی اتھارٹی میں نیک نیتی کا عمل دخل اس لئے نہ ہوسکا کہ اس عمل میں اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں پر ہاتھ ڈالنا پڑتا۔ وزیراعظم نے معاملہ پر غور کیلئے چاروں وزراءاعلیٰ اور متعلقہ وزیروں کا اجلاس طلب کیا تو اس اجلاس میں چینی کے نرخوں کے بارے میں عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کے احکام پر عملدرآمد کرانے کی سب سے زیادہ مخالفت وزیراعلیٰ سندھ نے کی کیونکہ ایوان صدر میں بیٹھی مقتدر شخصیت ہی کو چینی کے یہ نرخ قابل قبول نہیں جس کی سکرنڈ اور دیگر سات شوگر ملیں منافع میں معمولی سے خسارے کی بھی متحمل نہیں ہوسکتیں۔ اب وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں کی جانب سے مشترکہ طور پر سپریم کورٹ میں درخواست گزار ی گئی ہے کہ 40 رپے کلو کے حساب سے چینی فروخت کرنے کیلئے عدلیہ کے فیصلہ پر عملدرآمد کرانا ممکن نہیں ہے۔ کیوں ممکن نہیں ہے؟ اس لئے کہ اس سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں بیٹھی شخصیات کا منافع کم ہو جائے گا جس سے ان کیلئے اپنے معمولات کے مطابق زندگی گزارنا مشکل ہو جائے گا۔ شائد یہ صدمہ برداشت نہ کرتے ہوئے وہ جہانِ فانی سے ہی کوچ کر جائیں اور اگر وہ جہانِ فانی سے کوچ کریں گے تو پیچھے حکمرانی کون کرے گا کہ حکمرانی کا حق تو صرف اسی طبقہ کو حاصل ہے۔
ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ تو شوگر مافیا کے گٹھ جوڑ کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران یقینا اس نتیجہ پر پہنچ چکی ہے کہ ازخود نرخ بڑھا نے کے ایک ہی ہلے میں اربوں روپے منافع کمانے والے شوگر مل مالکان کیلئے 40روپے کلو چینی فراہم کرنا چنداں مشکل کام نہیں کہ ڈیڑھ دو ماہ قبل اس سے بھی کم نرخوں پر وہ کھلی مارکیٹ میں چینی فروخت کرتے اور معقول منافع کماتے رہے ہیں اس لئے اب وہ 40 روپے کلو کے حساب سے چینی فروخت کرکے بھی خسارے میں قطعاً نہیں جائیں گے۔مگرجب وفاقی اور صوبائی سطح پر پوری حکومتی مشینری عدالت عظمیٰ کو ایک طرح سے آنکھیں دکھا رہی ہو کہ چینی کے نرخوں کے بارے میں اپنے احکام پر عملدرآمد کراسکتے ہیں تو کرالیں یہ ہمارے بس سے باہر کا معاملہ ہے تو عدلیہ کیا اپنی بھد اڑانے کیلئے اپنے فیصلہ کو برقرار رکھے گی؟ جو عدالتی فیصلہ لاگو ہی نہیں ہو پائے گا اسے برقرار رکھنے کی رسوائی کیوں مول لی جائے گی چنانچہ اس کیس کا حتمی فیصلے سے پہلے ہی انجام واضح طور پر نظر آرہا ہے۔ آج چینی کے نرخوں کے معاملہ میں عدلیہ کو بے بس کیا گیا ہے تو کل کسی دوسرے ایشو پر عدلیہ کی بے بسی کا اہتمام کرلیا جائے گا۔ اس لئے سلطانی ¿ جمہور میں عدلیہ کی بے بسی کی صورت میں ہمہ وقت مقتدر طبقہ¿ اشرافیہ کو درحقیقت عید کا تحفہ دیا گیا ہے۔جبکہ جمہور کےلئے عید گفٹ دھکے، خواری، ذلت و رسوائی ہے، بھوک ہے اور بھوک کے ہاتھوں بلکتے بچوں کی مایوسی ان کے مجبور والدین کیلئے عید گفٹ کا حکومتی پیکیج ہے۔ اس حکومتی پیکیج کا نتیجہ گھریلو حالات اور کسمپرسی سے عاجز آئے خاندانوں کی اجتماعی خودکشی کی صورت میں ہی برآمد ہوگا۔ کراچی کی جو بوڑھی ماں اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کیلئے مفت آٹے کے حصول کی کش مکش میں ہجوم کے پاﺅں تلے آ کر کچلی گئی ہے وہ حکومتی پیکیج کے تحت اپنے بچوں کیلئے اپنی موت کی صورت میں عید گفٹ چھوڑ گئی ہے اور کوئٹہ کا جو مجبور والد اپنے خاندان کی بھوک مٹانے کی خاطر عید کی خوشیاں منانے کے ارمان اپنی آنکھوں میں بسائے اپنے والدین کے تفکرات سے بے نیاز اپنے معصوم بچے کو آٹے کے ایک تھیلے کے عوض فروخت کرنے کیلئے اس کے گلے میں برائے فروخت کا کتبہ لگا کر سربازار لے آیا ہے اس نے بھی غریب مار مہم پر مبنی عید گفٹ والے حکومتی پیکیج کی ہی بلامعاوضہ پبلسٹی کی ہے۔ اگر حکومت زور آور طبقات کے آگے بے بس ہے تو جو خلقِ خدا کے بس میں ہے وہ کرنے سے کیوں گریز کرے گی۔ اس لئے میٹھی عید میں کڑواہٹ گھولنے والے طبقہ¿ اشرافیہ کو نوید ہو کہ بے بس خلقِ خدا نے اپنے بس والا راستہ اختیار کرلیا ہے چنانچہ اب کی عیدمیں چاک گریبانوں کے ڈھیر لگے ہیں، خودکشیوں، خودسوزیوں کی بہار آئی ہوئی ہے اور برائے فروخت بچے عید کے تحفے میں مل رہے ہیں....
اور کیا چاہئے اب عید منانے کے لئے
خونِ دل تو میری آنکھوں سے چھلک نکلا ہے