سالوں کا حساب تو مجھے یاد نہیں۔ لیکن ایک لمبی مدّت کے بعد اقوام متحدہ کا سالانہ اجلاس اس عالم میں ہورہا ہے جب پاکستان کے صدر یا وزیراعظم میں سے ایک بھی چوٹی کی شخصیت عالمی اجتماع میں شریک نہیں ہو گی۔ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر البتہ شریک ہیں۔ وہی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں قوم و ملک کی ترجمانی کرتے ہوئے تقریر کریں گی۔ صدر زرداری ابھی ابھی علاج کرا کے برطانیہ سے وطن لوٹے ہیں۔ جبکہ وزیراعظم گیلانی اپنے بقول اس لئے عازم نیو یارک نہیں ہوئے کہ وہ تمام تر سرگرمیاں ملک میں رہ کر سندھ کے سیلاب زدگان پر مرکوز رکھنا چاہتے ہیں۔ اندرون سندھ غیر معمولی بارشوں نے گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے جو تباہ کن کیفیت پیدا کررکھی ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ لیکن ابتک جناب وزیراعظم نے اس علاقے میں دن نہیں گھنٹے ہی صرف کیے ہیں۔ بیرونی امداد کی اپیل کی ہے۔جس کا خاطر خواہ جواب ابھی تک نہیں ملا۔ یہ کام وہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوکر بھی کرسکتے تھے۔البتہ گزشتہ روز لاہور میں جناب گیلانی نے ڈینگی بخار کی وبا پر قومی صحت کانفرنس کی صدارت کی جسے انکی جماعت کے رہنما سنیٹر میاں رضا ربانی نے خلاف آئین قرا ر دیدیا ہے کہ خالصتاً صوبائی مسئلہ ہے۔ وزیراعظم اسے مشترکہ مفادات کی کونسل میں زیر بحث لاسکتے ہیں۔ پھر وہ کونسی مصلحت تھی جو جناب وزیراعظم کے دورہ نیو یارک کے آڑے آئی۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے۔ہمارا سفارتخانہ ان کی صدر اوبامہ کے ساتھ ملاقات کا وقت طے کراسکا نہ کسی اور قابل ذکر عالمی رہنما سے۔لہٰذا پاکستانی سربراہ حکومت نے اس سبکی سے بچنے کیلئے گھر بیٹھے رہنے میںعافیت خیال کی ہے۔ البتہ برسلز میں نیٹو کے اجلاس کے دوران امریکی فوجی سربراہ ایڈمرل مائیک مولن نے ہمارے سپہ سالار جنرل کیانی سے ملاقات کی ہے اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف فوجی کارروائی کا مطالبہ کیا۔ یہی ایجنڈا تھا وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کی اپنی امریکی ہم منصب ہلیری کلنٹن سے ساڑھے تین گھنٹے کے مذاکرات کا جہاں اوّل و آخر ایک ہی موضوع تھا۔حقانی نیٹ ورک! امریکہ مٹھی بھر افراد کے اس گروہ سے اتنا خائف کیوں ہے۔ جس کا پاکستان میں سرے سے وجود ہی نہیں ہے۔ اگر 13ستمبر کو کابل میں ہونے والے حملے کے بارے میں امریکی الزامات کو درست تسلیم کر لیا جائے تو اندازہ لگانا ہرگز مشکل نہیں کہ افغانستان کے اندر طالبان کی عوامی قوّت حقانی گروپ کے ساتھ مجتمع ہوگئی تو کیا قیامت ڈھائے گی۔ پھر امریکہ اپنی ناکامیوں کا الزام کس کے سر پر دھرے گا۔
امریکہ نے ابتک طالبان کے ساتھ براہ راست اور بالواسطہ مذاکرات کی جتنی خفیہ اور اعلانیہ کوشش کی ہے ایک بھی بار آور ثابت نہیں ہوئی۔ آخر کیا وجہ ہے۔ امریکہ کی نیت میں کوئی خرابی ہے یا طالبان نے طے کرلیا ہے وہ واحد سپر طاقت کو پوری طرح شکست سے دوچار کرنے کے بعد Point of Strength سے بات کریں گے۔ امریکی اگرچہ شکست تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ لیکن وہ فتح کا دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔ اس تناظر میں واحد سپر طاقت کیلئے بہترین طرز عمل یہ ہے وہ ملاّ عمر اور سراج الدین حقانی کے ساتھ باقاعدہ UP FRONT مذاکرات کا ڈول ڈالے جیسا کہ ویت نام جنگ کے اختتام پر پیرس میں مذاکرات ہوئے تھے۔اس مقصد کیلئے پاکستان سعودی عرب اور ترکی کا تعاون حاصل کیاجاسکتا ہے۔یہ تینوں ملک امریکہ کے دوست ہیں۔ کمبل سے نجات حاصل کرنے میں مدد دیں گے۔ آج کا ویت نام امریکہ کا دوست ہے۔ممکن ہے کل کا افغانستان بھی یہی راہ اختیار کرے لیکن پہلے آپ اس کا حق آزادی تسلیم کریں۔
امریکہ نے ابتک طالبان کے ساتھ براہ راست اور بالواسطہ مذاکرات کی جتنی خفیہ اور اعلانیہ کوشش کی ہے ایک بھی بار آور ثابت نہیں ہوئی۔ آخر کیا وجہ ہے۔ امریکہ کی نیت میں کوئی خرابی ہے یا طالبان نے طے کرلیا ہے وہ واحد سپر طاقت کو پوری طرح شکست سے دوچار کرنے کے بعد Point of Strength سے بات کریں گے۔ امریکی اگرچہ شکست تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ لیکن وہ فتح کا دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔ اس تناظر میں واحد سپر طاقت کیلئے بہترین طرز عمل یہ ہے وہ ملاّ عمر اور سراج الدین حقانی کے ساتھ باقاعدہ UP FRONT مذاکرات کا ڈول ڈالے جیسا کہ ویت نام جنگ کے اختتام پر پیرس میں مذاکرات ہوئے تھے۔اس مقصد کیلئے پاکستان سعودی عرب اور ترکی کا تعاون حاصل کیاجاسکتا ہے۔یہ تینوں ملک امریکہ کے دوست ہیں۔ کمبل سے نجات حاصل کرنے میں مدد دیں گے۔ آج کا ویت نام امریکہ کا دوست ہے۔ممکن ہے کل کا افغانستان بھی یہی راہ اختیار کرے لیکن پہلے آپ اس کا حق آزادی تسلیم کریں۔