مقصودِ کائنات سیدالکونین، ہادی سبل عقل کل محمد رسول اللہﷺ کی ذات اقدس کی بلندی کو کون پستی میں بدل سکتا ہے جبکہ اللہ نے اپنے حبیب کے بارے قرآن حکیم میں واضح کر دیا کہ ”ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کر دیا“ گویا یہ ناکندہ تراش اور محسنِ انسانیت کے منکرین خالق کائنات کے ساتھ جنگ لڑنے کی وہ کوشش کر رہے ہیں جو باطل کی تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ دنیا بھر میں اسلام زور شور سے پھیل رہا ہے اس کا اندازہ دشمنان اسلام کو بخوبی ہے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اسلام کے پھیلاﺅ کی بنیادی وجہ سیدالرسل کا وہ آفاقی کردار ہے جو انہوں نے انسانیت کی ترقی، بقا اور مساوات کے لئے ادا کیا یہی وجہ ہے کہ غزوہ بدر کے بعد دنیا نے ٹرننگ پوائنٹ لیا اور علوم و فنون کے ارتقاءکا وہ سلسلہ شروع ہوا جس کی بنیاد مسلمانوں نے رکھی اور آج پورا مغرب اس پر کھڑا دندنا رہا ہے۔ بنیادی سائنسز میں مسلمانوں نے جو بنیادی کردار انجام دیا اس کا اصل محرک فکرِ محمدی تھا۔ آج امریکہ برطانیہ اور دیگر مغربی و یورپی ممالک میں اگر سیاہ فام سر اٹھا کر چلتے ہیں تو اس کا مجموعی کریڈٹ پیغمبر اسلام بلکہ پیغمبرِ عالم کو جاتا ہے کہ انہوں نے پہلی بار دنیا میں حجتہ الوداع کے موقع پر فرمایا کہ آج سے کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ وہ کالے جن کو دروازوں کی چوکیداری اور زرخرید غلاموں کے علاوہ کوئی حیثیت حاصل نہ تھی۔ آج برملا کہا جا سکتا ہے، کہ محمد ابن عبداللہ علیھما افضل التحیة والسلام کی مدحت کرنا انسانی دسترس ہی میں نہیں جیسا کہ اسداللہ خاں غالب جیسے عظیم شاعر نے بھی مدح رسول کے حوالے سے قلم رکھ دیا
غالب ثنائے خواجہ یہ یزداں گزاشتیم
کاں ذاتِ پاکِ مرتبہ دانِ محمد است
(غالب محبوب خدا کی ثنا اللہ کے سپرد کر دی، کہ بلاشبہ وہی ذات باری تعالیٰ ہی رفعتِ محمد کے مرتبے سے آگاہ ہے)
رسول اللہﷺ کی عظمت کی ایک دلیل برہان قاطع ہے کہ آج تک اسلام دشمنوں نے ہمارے خدا کی توہین نہیں کی، جب بھی توہین کی سیدالانبیائ کی شان میں گستاخی کی۔ اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ توہینِ محمد ہی توہینِ اللہ ہے۔ اقبال کی فرزانگی کو دیکھیں کہ کس والہانہ انداز میں وہ حقیقت بیان کر دی جو حقیقة الحقائق ہے۔ وہ ایک عجمی عالم دین کا قبلہ یوں راست کرتے ہیں
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی تمام بو لہبیست
(احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ کی ذات پاک تک رسائی حاصل کرو کہ دین سراپا محمد ہے۔ اگر ان کی بارگاہِ قدس میں حاضری نہ دی تو باقی صرف بولہبی رہ جاتی ہے، کہ آفتاب رسالت تلے بھی تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں مارتی رہی)
ایک مرتبہ آپ صحن مسجد نبوی میں کھڑے تھے کہ ایک شخص مسلسل ٹکٹکی باندھ کر آپ کو دیکھتا رہا۔ آپ نے ارشاد فرمایا کیا بات ہے کیوں اس طرح دیکھتے ہو اس نے کہا مجھے آپ سے عشق ہو گیا ہے۔ آپ نے تین بار پوچھا سوچ لو کیا کہہ رہے ہو۔ اس نے عرض کیا حضور! مجھے واقعتاً آپ سے محبت ہو گئی ہے۔ آپ نے فرمایا پھر زمین و آسمان کے درمیان جتنے مصائب و آلام ہیں برداشت کرنے کے لئے کمر کس لو۔ مرزا بیدل کے دل میں عشقِ محمد ہی تو تھا کہ کہا
عشق از فریادما ہنگامہ ہا تعمیر کرد
ورنہ ایں بزمِ خموشاں ہیچ غوغائے نداشت
(عشق محمد میں اٹھنے والی میری فریاد نے ہنگامے کھڑے کر دئیے ورنہ یہ بے آواز لوگوں کی محفل تو سراپا خاموشی تھی)
وہ محمد جس کے لائے انقلاب کی ٹھنڈک ایک یتیم غریب بچی کے کانوں کی لو نے بھی محسوس کی۔ بچی نے فتح مکہ کے موقع پر اپنی ماں سے خیمے میں کہا: ماں! اب وہ سردار جو ہر روز آپ کو بالوں سے گھسیٹتا ہوا لے جاتا ہے نہیں آئے گا۔ ماں نے کہا بیٹی کبھی نہیں نبی¿ رحمت آ چکے ہیں، اب کوئی غیر محفوظ نہیں۔ آج کا دن عشق محمد کی صداﺅں، اداﺅں، برکتوں، مہکاروں اور رفعتوں سے معمور ہے۔ حکومت پاکستان کو مبارک ہو کہ اس کے دل میں عشق محمد کی لہر جاگ اٹھی، اب کوئی بعید نہیں کہ اس ملک کے سارے دلدر دور ہو جائیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے عشق رسول کی آواز بلند کرکے پوری دنیا کو اپنا مسلک بتا دیا۔ اب اس عشق کے وہ تقاضے بھی پورے کرنے ہوں گے جن کا ہم پیچھے ایک واقعے میں ذکر کر آئے ہیں۔ غالب کے اس تصور کہ مدح رسول صرف اللہ ہی کر سکتا ہے کی دلیل یہ آیت ہے کہ ”اللہ اور اس کے فرشتے نبی پاک پر دورد بھیجتے ہیں، اے ایمان والو تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو“ اور آپ دیکھئے کہ ہر درود پاک میں ہم اللہ ہی سے درخواست کرتے ہیں کہ ”اے اللہ، محمد اور اس کل آل پر درود بھیج“ غزوہ احد میں اس فلکِ پیر نے وہ منظر بھی دیکھا، جب چاروں طرف سے کفار نے آپ پر حملہ کر دیا اور آپ کے جانثاروں کے کٹے ہوئے ہاتھوں بازوﺅں اور گردنوں کے انبار لگ گئے
حسنِ یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشتِ زناں
سر کٹاتے ہیں تیرے نام پہ مردانِ عرب
اور احمد رضا خان بریلوی نے ایک اور حالتِ عشق و مستی میں کہا:
کروں مدح اہلِ دول رضا پڑے اس بلا میں مری بلا
میں غلام ہوں اپنے کریم کا میرا دین پارہ¿ نان نہیں
آج پاکستان کے حصول کا مقصد پورا ہوتا دکھائی دیتا ہے کہ قائد و اقبال دونوں عشاق رسول تھے اور انہیں کے عشق میں ان کے نام ایک اور دیار عشق آباد کر دیا، جسے پاکستان کہتے ہیں۔ صدر زرداری اور وزیراعظم راجا پرویز اشرف کو ملکی سطح پر یوم عشق رسول منانے پر بے شمار مبارکبادیں قبول ہوں۔