آزاد جموں و کشمیر ایکٹ 1974ءمیں ترامیم

Sep 21, 2012

رشید ملک

آزاد جموں و کشمیر ایکٹ 1974ءمیں ترامیم جلد منظور ہو جانے کی توقع ہے۔ ایکٹ 1974ءکے تحت یہ ترامیم کشمیر کونسل اور آزاد کشمیر اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں منظور کی جائینگی۔ میاں منظور احمد وٹو وزیر امور کشمیر کے بلائے گئے حالیہ اجلاس میں آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں (اسمبلی اور اسمبلی کے باہر) کے رہنما¶ں نے شرکت کی تھی۔ اس اجلاس میں ایکٹ 1974ءمیں ترامیم کرنے پر اتفاق رائے ہو گیا تھا لیکن انوکھا فیصلہ یہ ہوا کہ ہر جماعت اپنی اپنی ترمیمی تجاویز آزاد کشمیر کی پارلیمانی پارٹی کو ارسال کرے گی۔ آزاد جموں و کشمیر مسئلہ کشمیر کی بین الاقوامی قراردادوں 13 اگست 1948ءاور 5 جنوری 1949ءکی روشنی میں کشمیری عوام نے سلامتی کونسل کی زیر نگرانی رائے شماری میں حصہ لیناتھا کہ وہ ہندوستان کےساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں اقوام متحدہ کی اس تجویز پر ہنوز عمل نہیں ہوا۔ کشمیر کو متنازعہ خطہ سمجھتے ہوئے آزاد جموں و کشمیر کو ایک حیثیت دے رکھی ہے۔ بھارت نے شیخ عبداللہ اور ان کی نیشنل کانفرنس کی حمایت سے جموں کشمیر پر فوج کشی کی تھی۔ جہاد جاری تھا آزاد جموں و کشمیر کا تقریباً پانچ ہزار مربع میل کا خطہ آزاد ہو چکا تھا اس میں ایک باقاعدہ حکومت کا قیام 24 اکتوبر 1947ءکو سردار محمد ابراہیم خان کی صدارت میں عمل آیا تھا۔ پاکستان سے الحاق کی علمبردار جماعت مسلم کانفرنس نے اپنی مجلس عاملہ کے اجلاس میں اس حکومت کی باقاعدہ منظوری دی تھی۔ اس وقت جو رولز آف بزنس نافذ کئے گئے تھے ان میں لکھا گیا تھا کہ آزاد جموں و کشمیر حکومت کا صدر مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل وزارت امور کشمیر (پاکستان) کی مشاورت سے نامزد کرےگی۔ یہ نظام درمیان میں چھوٹی موٹی ترمیم کے ساتھ 1970ءتک چلتا رہا۔ 1970ءمیں جنرل یحییٰ خان نے مارشل لاءمیں پہلی بار ایکٹ 1970ءنافذ کیا جس کے تحت آزاد کشمیر میں پہلی بار بالغ رائے دہی کی بنیاد پر صدارتی انتخاب اور 24 رکنی اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔ سردار عبدالقیوم بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہو گئے تھے۔ 1971ءمیں جنرل یحییٰ کے مارشل لاءمیں پاکستان میں پارلیمانی انتخابات ہوئے، ہمارا مشرقی بازو الگ ہو گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ آزاد کشمیر میں صدارتی نظام اور پاکستان میں پارلیمانی نظام ذوالفقار علی بھٹو اور سردار عبدالقیوم میں پہلے کھٹ پٹ کے ساتھ اور پھر باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ چلتے رہے۔ 1975ءمیں آزاد کشمیر میں پارلیمانی نظام نافذ کیا گیا۔ اس ایکٹ کے تحت پاکستان اور آزاد کشمیر میں آئینی، مالی، انتظامی امور میں رابطہ کےلئے ایک کشمیر کونسل قائم کی گئی تھی۔ پاکستان کے وزیراعظم اس کونسل کے چیئرمین ہیں۔ امن کشمیر کونسل نے رابطہ کار کا اپنا دائرہ بڑھا کر آزاد کشمیر کے آئینی، مالی اور انتظامی امور بھی اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ اس دست درازی کے باعث وفاق اور آزاد جموں و کشمیر میں نرم روی قائم نہیں رہی۔ پاکستان میں اٹھارہویں ترمیم کی منظوری کا اطلاق آزاد کشمیر پر نہیں ہو سکتا تھا لیکن آزاد کشمیر کا یہ حق تو ہے کہ اسکے ایکٹ 1970ءمیں چھینے گئے اختیارات واپس دئیے جائیں۔ میاں منظور وٹو کی بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس میں یہ اتفاق رائے تو ہو گیا ہے کہ ایکٹ 1974ءمیں ترامیم کی جائیں لیکن ترامیم کی تجاویز ہر پارٹی رہنما پارلیمانی کمیٹی کے پاس بھیجے گا۔ اس سے بحث کے دروازے کھل جائینگے۔ یہ ترامیم اسی کل جماعتی کانفرنس میں ہی متفقہ مسودہ کی صورت میں طے کر دینی چاہئیں تھیں۔ آزاد کشمیر کو امتیازی سلوک یا محرومی کے احساس سے نجات مل جائےگی۔ اسکے مثبت اثرات تحریک آزادی کشمیر پر پڑینگے۔ مقبوضہ کشمیر میں ایک حوصلہ افزا پیغام جائےگا۔

مزیدخبریں