واشنگٹن (آئی این پی) امریکہ کے سابق جنرل جان مکین نے افغانستان سے اتحادی افواج کے کامیاب انخلاءاور 2014 کے بعد خطرات کو کم کر نے کے لئے پاکستان میں طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کی تجویز دی ہے۔ جمعہ کو رپورٹ نمائندگان کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے روبرو بیان دیتے ہوئے جنرل (ر) جان مکین نے کہا کہ 2014 کے بعد کے خطرے کو کم کر نے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اتحادی افواج کو پاکستان میں طالبان اور حقانی رہنماﺅں کو نشانہ بنانے کا اختیار دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اولین ترجیح حقانی گروپ کے ٹھکانے ہونے چاہئیں کیونکہ جنوبی علاقوں کی نسبت مشرقی علاقوں میں سیکورٹی کی صورتحال مستحکم ہے۔ یہ فاٹا میں القاعدہ کے خلاف آپریشن اور او جی اے مشن میں توسیع ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ جب کارروائیوں کا آغاز ہوگا تو یہ پناہ گاہیں ختم ہو جائیں گی۔ ان پناہ گاہوں میں حکمت عملی تیار کی جاتی ہے۔ دہشت گردوں کو تربیت دی جاتی ہے۔ خفیہ معلومات اور سامان وغیرہ فراہم ہوتا ہے۔ آپریشن سے یہ سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس کارروائی کے مثبت نتائج بر آمد ہوں گے اور افغانستان کے مشرقی علاقوں میں ہونے والے آپریشن پر بھی اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور افغان نیشنل سیکورٹی فورسز کا مورال بلند ہوگا اور نفسیاتی فتح بھی دے گا۔ انہوں نے اتحادی افواج کے انخلاءکے بعد افغانستان میں 20 ہزار فوجیوں کی موجودگی یقینی بنانے کی بھی تجویز دی۔ اس کمیٹی میں بیان دیتے ہوئے افغانستان میں امریکہ کے سابق سفیر رونالڈ ای نیومین نے کہا کہ پاکستان کو وارننگ دے دی جائے کہ اگر افغانستان میں آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات میں کوئی مداخلت ہوئی تو اسے اوباما انتظامیہ کے خلاف مخالف اقدام سمجھا جائے گا، امریکہ پاکستان پر افغانستان میں انتخابات کے دوران سرحدی سیکورٹی کو مضبوط بنانے کے لیے دباﺅ ڈالے اور اسے کہا جائے کہ وہ افغان الیکشن میں سکیورٹی فول پروف بنانے اور ان کی شفافیت کےلئے تعاون کرے ، ہمیں افغانستان میں عام انتخابات میں ناکامی کی صورت میں اس کے سنگین نتائج کیلئے تیار رہنا ہو گا۔ سابق سفیر اور امریکن اکیڈمی آف ڈپلومیسی کے صدر رونالڈ نے کہا کہ امریکہ پاکستان پر یہ بھی زور دے کہ وہ الیکشن مبصرین کی منصوبہ بندی، افغانستان میں ووٹ کا تحفظ یقینی بناکر اور انتخابی تربیت کے دوران امریکی حمایت کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے مدد فراہم کرے۔ رونالڈ نے کہا کہ پاکستان پر زور دینا چاہیے کہ اسے افغانستان میں انتخابات کے موقع پر سرحدوں پر بڑے پیمانے پر فوج تعینات کرنا ہو گی تا کہ اس دوران کسی بھی قسم کی دراندازی اور دخل اندازی کو روکا جا سکے۔ پاکستان نے پہلے بھی ایسا کیا اور اب بھی اس کی مدد کی ضرورت ہے۔ ورنہ امداد میں کمی جیسے اقدام کے نتائج نکلیں گے اور اگر پاکستان نے منظوری نہ دی ، سرحدوں پر فضائی حملے کیے جائیں گے۔ دوسری جانب امریکی محکمہ دفاع کے شعبہ پالیسی کے سابق نائب سیکرٹری مائیکل فلور نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف کوششوں میں تعاون بڑھا کر عسکریت پسندی کافی حد تک کم ہوئی ہے۔