اسلام آباد (بی بی سی) پاکستان میں اسلامی نظریہ کونسل نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ توہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال کرنے والے شخص کو بھی وہی سزا دی جائے جو ج±رم ثابت ہونے کی صورت میں کسی ملزم کو دی جاسکتی ہے۔ بی بی سی کے مطابق پاکستان کے موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کونسل کی یہ تجویز کتنی کارآمد ثابت ہوگی؟ اور کیا پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال اس سے بند ہو جائے گا؟ یہ تجویز کس حد تک منطقی ہے کیونکہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسے موقعوں پر لوگ عقل کی بجائے جذبات سے کام لیتے ہیں۔ سینئر صحافی و مصنف محمد حنیف کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں فوری طور پر کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن یہ بات خوش آئند ہے کہ کونسل اس بات کو ماننے لگی ہے کہ توہین مذہب سے متعلق جو بہت سے کیسز بنائے جاتے ہیں ا±ن میں الزام کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی۔اسی موضوع پر تاریخ دان ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ ضیاء الحق کے دور سے ہی جب یہ قانون بنایا گیا، تب سے کہا جارہا ہے کہ توہین مذہب کے قانون میں اصلاح کی گ±نجائش موجود ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اسلامی نظریہ کونسل کی جانب سے اس قانون کے غلط استعمال سے متعلق کوئی تجویز آئی ہے تو اس ضمن میں فوری طور پر ترمیم کردینی چاہیے۔ پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال پر سزا کی تجویز کو مختلف حلقوں میں اس لیے بھی خوش آئند قرار دیا جارہا ہے کہ یہ شاید پہلی دفعہ ہے کہ مذہبی علما نے ک±ھل کر اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس قانون کے غلط استعمال کی وجہ سے معصوم اور بے گناہ افراد مارے جاتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی بحث چھڑ گئی ہے کہ توہین مذہب کے الزام کا سامنا کرنے والے شخص سے ہمدردی یا ا±س شخص کے حق میں بات کرنے والے کی جان کی کیا ضمانت ہوگی۔
بی بی سی