پاکستان میں آزادی کے بعد اب تک 21 شدید نوعیت کے سیلاب آ چکے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ملک کو بے انتہا جانی مالی اور دیگر نقصانات برداشت کرنے پڑے ہیں اور ملکی معیشت بربادی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ اس ضمن میں حکومتی مجرمانہ غفلت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں متعدد بار سیلاب آنے کے باوجود اس سلسلے میں کوئی جامع اور ٹھوس حکمت عملی یا منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔ ملک کے مختلف علاقوں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ابھی تک سیلاب کی وجہ سے خاصاجانی، مالی نقصان ہو ا ہے۔ دےہی علاقوں مےں پالتو جانور، فصلیں اور لوگوں کے رہائش گاہیں بڑے پیمانے پر تباہ ہو چکی ہیں سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور ان سے ملحقہ علاقے بڑے پیمانے پر متاثر ہوئے ہےں۔ سیلاب کی وجہ سے صرف دیہی علاقوں ہی میں تباہی نہیں پھیلی بلکہ شہروں مےں نشیبی علاقوں میں مقیم افراد کو شدید مالی نقصانات اٹھانا پڑے ہیں۔ موسموں کی تبدیلی کے سلسلے میں عالمی سطح پر سائنس دانوں اور موسمیات کے ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ ان تبدیلیوں کے دور رس نتائج مرتب ہونگے اور اس سے متاثر ہونے والے افراد کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی عمل میں آئے گی۔ اس ضمن مےں پاکستان جو کہ پہلے ہی معاشی بدحالی کا شکار ہے اس کے متاثر ہونے کے واضح امکانات موجود ہےں ۔ اور اس سے ملک مےں صحت، رہائش اور اشےائے خورد و نوش کی شدید قلت پےدا ہو گی۔ اس سلسلے میں بطور خاص دریاﺅں سے ملحقہ علاقوں میں رہائش پذیر افراد کو سب سے زیادہ تباہی کا سامنا کرنا یڑتا ہے کیونکہ سیلاب اُن کی فصلیں، رہائش اور جمع شدہ پونجی سب کچھ تباہ کر دیتا ہے نیز اس سے متعدد بیماریاں جن میں معیادی بخار، ہیضہ اور سانس کی تکلیفات سرفہرست ہیں۔ سیلابوں کی وجہ سے ناصرف فصلیں تباہ ہوتی ہیں بلکہ زرعی زمین بھی بُری طرح متاثر ہوتی ہے اور کسان وقت پر فصل کاشت نہیں کر سکتے جو کہ ملک میں زرعی اجناس کی قلت کا سبسب بنتا ہے۔
قارئین! ایک محتاط اندزاے کے مطابق ملک مےں آنے والے سیلاب کے نتیجے میں ہمیں 50 سے 60 بلین کے نقصانات برداشت کرنے پڑیں گے کیونکہ بھارت کی طرف سے دریاﺅں میں پانی چھوڑنے اور تقریباً 500mm بارش کی وجہ سے 7 لاکھ ایکڑ زرعی زمین پر پانی کھڑا ہے وہاں پر فصلیں تباہ ہو چکی ہےں۔ اس کے نتیجے میں آم، مالٹا اور کپاس کی فصلوں کو بہت نقصان ہوا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ہماری صنعتوں کیلئے خام مال ہماری زراعت ہی مہیا کرتی ہے لہٰذا ہمیں زرعی اور صنعتی لحاظ سے رواں سال خسارہ برداشت کرنا ہو گا۔ علاوہ ازیں علاقے میں بسنے والے افراد کا مالی نقصان تقریباً 50 بلین کے قریب ہے۔ مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں مندرجہ ذیل اقدامات ناگزیز ہیں:
اول: محکمہ موسمیات اور پلاننگ کمشن میں مکمل COORDINATION یعنی رابطہ ضروری ہے تاکہ تقریباً ہر سال آنے والے سیلاب کے سلسلے میں ضروری حفاظتی اقدامات تشکیل دئیے جا سکیں۔
دوم: حکومت تمام این جی اوز کے کام میں ربط پےدا کرے تاکہ سیلاب آ جانے کے بعد امدادی کاروائیوں کو مو¿ثر طور پر بروئے کار لایا جا سکے۔
سوم: اور سب سے اہم ترین ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک میں جنگی بنیادوں پر چھوٹے ڈیم بنائے جائیں۔ مزید برآں کالا باغ ڈےم کی تعمیر ملک کے روشن مستقبل کیلئے ناگریز ہے۔ اس سلسلے میں اب تک قائم ہونے والی تمام جمہوری اور فوجی حکومتوں نے صرف اپنے اقتدار کو طول دینے کی غرض سے کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے گریز کیا اس ڈیم کی مخالفت ایک سیاسی مسئلہ ہے کیونکہ متعدد ماہرین بشمول انجینئریز شمس الملک نے اپنی تحقیق میں اس بات کو ثابت کیا ہے کہ کالا باغ کی تعمیر سے کسی شہر یا صوبے کو قطعی کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ اس سلسلے میں ہمارا ازلی دشمن بھارت اربوں روپے خرچ کر کے ہمارے ملک مےں بسنے والے مُٹھی بھر غیر محب وطن لوگوں کو اس ڈیم کی مخالفت پر اکسا رہا ہے۔ یہ صرف مفروضہ نہیں بلکہ اس کے بارے مےں ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حکومت ایک جامع پالیسی تیار کرے اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے سلسلے میں ملکی سطح پر ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے جنگی بنیادوں پر کا م کرے کیونکہ ہم ہر سال لاکھوں کیوسک پانی ضائع کر دیتے ہیں اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات بھی برداشت کرتے ہیں۔