”عسکری تقاضے سامنے رکھتے ہوئے ہم نے روس کی بجائے امریکہ سے تعلقات بنائے“

Sep 21, 2014

لاہور (سپیشل رپورٹر) فوج کو سیاست میں گھسینا ملک سے دوستی تھی یا دشمنی وزیراعظم کا فوج سے سیاسی مسئلہ میں شامل کرنے سے کیا فوج کے بارے میں لوگوں کو بولنے کا موقع ملا، کیا عمران خان اور طاہر القادری کے اشاروں کی وجہ سے لوگوں نے فوج سے وضاحتیں مانگنی شروع کر دیں جس سے ادارے پر انگلیاں اٹھنا شروع ہوئی۔ دھرنوں کی سیاست ختم ہونے والی ہے دھرنوں کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ سپکرٹ کی باتیں ختم ہونی چاہیں کیا حکومت کو ڈیل عمران سے کرنی چاہیے یا طاہر القادری بھی اس میں شامل ہونے چاہیں موجودہ صورتحال پاکستان کی سیاست میں اہم موڑ ہوگا وقت ٹی وی کے پروگرام ان سائیٹ کے میزبان سلیم بخاری کی طرف سے شرکاءپروگرام سے اہم سوالات پر بات کی گئی جس میں تجزیہ نگار، صحافی سجاد میر، کالم نگار اوریا مقبول جان، سینئر صحافی سلمان غنی اور دانشور و کالم نگار پروفیسر ڈاکٹراجمل نیازی نے شرکت کی۔ سجاد میر نے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا تشویش اس بات پر نہیں تھی کہ فوج سیاست میں ملوث ہے کہ نہیں جبکہ اصل تشویش کی وجہ عالمی میڈیا میں شائع ہونے والی خبریں ہیں۔ انہوں نے کہا جس وقت پاکستان بنا تھا تو عسکری تقاضوں کو اولیت دے کر ان کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے روس کی بجائے امریکہ سے تعلقات بنانے کو ترجیح دی اپنے معاشی فیصلے اسی بنیاد پر کئے اپنے معاہدے اسی بنیاد پر کئے تھے۔ اب بھی فوج کے نقطہ نظر کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے تعلقات کو قائم کرتے ہیں یا بڑھاتے ہیں۔ انہوں نے کہا سیاست دان ناکام ہوں تو پھر فوج آتی ہے فوج ناکام ہو تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کیا قیمت دینا پڑتی ہے۔ جب واجپائی آئے فوج نے سرعام سیلوٹ نہیں کیا کرگل ہوا تو پوری قوم فوج کے ساتھ کھڑی تھی لیکن مشرف بھارت گئے تو انہوں نے آوٹ آف باکس کشمیر کا حل تجویز کیا۔ صرف فوجی حکمران ایسا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا اس دھرنے سے عمران کا رابطہ عوام سے ہو گیا ہے ہمارا سٹیٹ سٹرکچر تباہی کا شکار ہے۔ اوریا مقبول جان نے پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا سسٹم کو وہ ریفامز کر سکتا ہے جس نے کبھی فوج کے دروازے پر آنکھ نہ لگائی ہو۔ ہم آج بھی فوج کے کردار کو مان لیں تو سیاسی مسائل حل ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا بھارت تعلقات پر فوج کو اعتراضات ہو سکتے ہیں کیونکہ جب وہ بلوچستان یا فاٹا کے روٹ دیکھتے ہیں تو ان میں یہ جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا مشرف پر 7 حملے ہوئے اس کا مطلب ہے ان کی پالیسیاں فوج کی سوچ سے ہم آہنگ نہیں تھیں۔ انہوں نے کہا عمران سے ڈیل کا وقت گزر گیا ہے جو لوگ عمران اور طاہر القادری کے ساتھ ہیں میں ان کو عطر سمجھتا ہوں وہ نیک نیتی سے بیٹھے ہیں وہ کچھ نہ کر کے گئے تو مایوسی پھیلے گی۔ سینئر صحافی سلمان غنی نے پروگرام میں کہا فوج آج پاکستان میں ایک بڑی منظم پولیٹکل فورس ہے وہ قومی معاملات سے الگ نہیں۔ آصف زرداری نے کچھ چیزیں فوج پر چھوڑ کر پانچ سال پورے کر لئے قوم نے نواز شریف کو مینڈیٹ دیا اور توقع لگائی لوڈشیڈنگ ختم ہوگی ان کو روٹی سستی ملے گی۔ انہوں نے کہا ہمارے یہاں سیاست دان کو ٹارگٹ کرنا آسان ہے۔ اجمل نیازی نے کہا فوج تب آئی جب سیاست دان ناکام ہوئے پچھلے لانگ مارچ کو بھی جنر ل کیانی کے کہنے پر ختم کیا گیا حکمران فوج کو پولیس بنانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا عمران کے خلاف ہوں وہ آیا تو عوام کو زیادہ مایوس کرے گا۔ یہ حکومت دھرنے والوں کا معاملہ نہیں پاکستان پر حملہ ہے کیونکہ بعض عالمی فورسز فوج کو بدنام کرنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا دھرنے والے لوگ مایوس ہو کر گئے تو انقلاب آجائے گاکیونکہ وہ سچے دل سے وہاں بیٹھے ہیں۔

ان سائیٹ

مزیدخبریں