کوئٹہ (بیورو رپورٹ) بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیراہتمام شاہوالی سٹیڈیم میں جلسہ ہوا۔ بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے لوگ اپنی سرزمین اور مٹی کے بھوکے ہیں ہم وہ اقتدار چاہتے ہیں جہاں بلوچ اور پشتون سر اٹھا کر چلیں، ہم وہ اقتدار چاہتے ہیں جس میں ہمیں اختیار حاصل ہو، وطن کی خاطر شہید ہونے والے جوانوں کو سلام پیش کرتے ہیں، آج حلف لینے والے کارکنوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں آج کے اجلاس کو چار دیواری میں کرنے کا مشورہ دیا گیا ہم کیوں چھپیں ہم نے کوئی جرم نہیں کیا ہم خوف اور ڈر کی فضا ختم کرنا چاہتے ہیں اسی لیے سٹیڈیم میں جلسے کا فیصلہ کیا۔ لوگ کہتے تھے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کا جنازہ نکل گیا جنازے کیلئے ڈبوں نہیں کندھوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بی این پی کو پرویز مشرف بھی ختم کرنے میں ناکام ہو گئے۔ بی این پی ایک تحریک ایک سوچ کا نام ہے عوام بلوچستان کے مسائل کا واحد حل بی این پی کو سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ساحل اور وسائل پر مکمل اختیار اور حق ملکیت کو تسلیم کیا جائے مردم شماری سے قبل افغان مہاجرین کے انخلاءکو یقینی بنایا جائے اس کے برعکس مردم شماری قبول نہیں کریں گے۔ اس موقع پر پارٹی کے مرکزی ڈپٹی آرگنائزر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی ، بی ایس او کے جاوید بلوچ، اختر حسین لانگو نے خطاب کیا جبکہ قرارداد آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ نے پیش کی سٹیج سیکرٹری غلام نبی مری نے سر انجام دیئے ضلع کوئٹہ کی کابینہ سے حلف بھی لیا گیا۔ سردار اختر جان مینگل و دیگرنے کہا کہ انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ بلوچستان کے غیور عوام بلوچستان نیشنل پارٹی کے ساتھ ہیں یہ جلسہ عام بیاد بزرگ رہنما شفیع محمد عرف ادا بابے لہڑی اور میر عزیز گمشادزئی منعقد کیا جا رہا ہے عوام کا یہ ٹھاٹے مارتا ہوا سمندر نے یہ بھی حکمران پر واضح کر دیا ہے جو عوام کے ووٹوں سے نہیں بلکہ ٹھپہ ماری کے ذریعے اقتدار پر براجمان ہوئے ہیں تاریخی جلسے نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ بلوچ عوام باشعور ہو چکے ہیں انہیں اب مزید کوئی دھوکہ نہیں دے سکتا پارٹی کے سامنے بلوچستان کے غیور عوام ہمارا سرمایہ ہیں شہداءجنہوں نے اپنی زندگی ثابت قدمی سے گزاری ان کی قربانیاں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں میں ان شہداءکو سلام پیش کرتا ہوں اور کوئٹہ کے ضلعی کابینہ کے دوستوں جن کی انتھک محنت کے بعد آج کا کامیاب جلسہ عام منعقد کروا کر حکمرانوں کو یہ پیغام دیا کہ بی این پی کو دیوار سے لگانا ممکن نہیں۔ الیکشن میں بہت سے لوگوں کو جعلی مینڈیٹ کے ذریعے اسٹیلبشمنٹ نے ٹھپے لگوا کر کامیاب کرایا لیکن ان کو عوامی پذیرائی سے محرومی ہی نصیب ہوئی وہ بلوچستان نیشنل پارٹی کا جنارہ نہیں نکال سکے۔ اقتدار ہماری منزل ہے نہ ہی ہم اقتدار کے بھوکے ہیں آج جو لوگ یہاں پر آئے ہیں یہ بلوچستان سے مہر محبت انہیں یہاں کھینچ لائی ہے۔ حکمرانوں نے بھی اپنی پالیسیوں سے اس سرزمین کے کونے کونے کو لال کر دیا ہے انہوں نے بلوچ فرزندوں کو والدین کے دست شفقت سے محروم تو کر دیا مگر ان کے زخموں پر مرہم رکھنے میں ناکام ہوئے آج بھی لاپتہ افراد ، مسخ شدہ نعشیں ملنے کا سلسلہ جاری ہے ہم ان لوگوں کو زندہ باد کہیں گے نہ مردہ باد جن کے ضمیر زندہ ہیں وہ زندہ باد اور جن کے ضمیر مردہ ہیں ان کے مردہ باد ہی کہہ سکتے ہیں اسی لئے کہتے ہیں کہ الیکٹرانک میڈیا نے ہمیں کئی عرصہ سے اپنے اداروں سے بلیک آﺅٹ کیا ہے ہمارے چہرے اتنے بھیانک نہیں کہ قربانیوں کے جانور تو دکھائے جائیں۔ ہمیں بھی اپنی سرزمین کو اہمیت دینی چاہئے 90کی دہائی میں والدمحترم نے گوادر کے متعلق جن خدشات تحفظات کا بارہا اظہار کیا یہاں کی قوم پرست ، وفاق پرست پارٹی نے کہا کہ ہم ترقی مخالف لوگ ہیں ماضی میں گوادر کی زمینیں فروخت کر دی گئیں آج ہر باشعور علم رکھتا ہے کہ گوادر کے زمینوں کا سودا کراچی میں لگایا جا رہا ہے کیا ایسی ترقی دی جا رہی ہے کہ گوادر کاشغر روٹ، ہوشاب، قلات ، مستونگ ہو یا پنجگور، کوئٹہ تا ژوب یا سر اواران، جھالاوان کے لوگوں کو خوش کرنے کیلئے روٹ ہو روٹ گوادر کے عوام کے مسائل کا حل نہیں۔اختر مینگل نے کہا کہ جتنی کوریج بکروں، بیلوں اور گدھوں کو دی جا رہی ہے کم از کم اتنی کوریج تو بلوچستان کے مسائل کو بھی دی جائے انہوں نے کہا کہ اگر ان کی اور ان کی پارٹی کے رہنما ڈاکٹر جہانزیب کی شکلیں اداکارہ وینا اور اداکارہ میرا جیسی نہیں تو کم از کم بکروں، بیلوں اور گدھوں سے زیادہ بدصورت بھی تو نہیں۔
اختر مینگل