گذشتہ سے پیوستہ
معاشرے میں پھیلا”انا“ کا یہ زہر ہماری معاشرتی اور خاندانی زندگیوں کو تباہ کررہا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر ہماری مذہبی زندگی کو ہی دیکھ لیجئے۔ ہمارا اصل مقصد اور اصل راستہ کہیں گم ہوچکا ہے اور ہم سب مذہبی رہنماو¿ں کی انا کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ذاتی انا کی جنگ میں دین کا وہ استعمال کیا گیا ہے کہ آج ہر طرف دھند ہی دھند دکھائی دیتی ہے اور درست راستے کاانتخاب ناممکن سا ہوچکا ہے سوائے اس کے کہ ہم صرف اپنی شعوری کوشش اور دلی رہنمائی سے کسی راستے کاانتخاب کرلیں کوئی چارہ نہیں علماءکے پاس جائیں تو سوائے دوسرے مسلک پر تنقید کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ آپ متفق ہوں یا نہ ہوں ہم نے تو اس فلسفے پر عمل شروع کردیا ہے کہ
”تم اپنی مسجد کو جاو¿ ہم اپنی مسجد کو جائیں“ یوں کم از کم جھگڑے سے تو بچتے ہیںتو حقیقت یہ ہے کہ ۔۔۔۔
انا کا راگ اب ہر جانب الاپاجارہا ہے اور یہ راگ ہمیں نہ دوسروں سے کچھ سیکھنے کااعتراف کرنے دیتا ہے نہ کسی کی خوبیوں اور صلاحیتوں کی تعریف کرنے دیتا ہے۔ بحث اور جھگڑے کی صورت میں یہی”انا“ بات چیت میں پہل کرنے سے روکتی ہے کہ ”نہیں“اس طرح تو تم قصور وار ٹھہرو¿ گے اوریوں شکایتیں ، غلط فہمی، جھگڑے کبھی ختم نہیں ہوپاتے کیونکہ وضاحتوں کا وقت نہیں اور جھکنا ہماری انا کے خلاف۔ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم اختصار پسند ہوگئے ہیں۔ کوئی بہت سا وقت دے کر بہت سی جسمانی مشقت کے بعد ہمیںکوئی مزیدار ڈش بنا کر کھلائے یا ہمارا کوئی بھی ایسا کام کرتے جو وقت طلب بھی تھا اور جاں طلب بھی تو ہمارے پاس صرف ایک لفظ ہے ”Thank You“کسی کو ہم سے غلط فہمی پیدا ہوجائے کوئی شکایت ہوجائے تو اس کی شکایت دور کرنے کا وقت ہمارے پاس نہیں ہوتا۔ اگر کوئی اہم شخص ہو تو صرف”Sorry“اور کوئی ماتحت یا کوئی بھی غیر اہم شخص تو اس کو جتنی مرضی غلط فہمی ہوجائے ہم پرواہ نہیں کرتے اور عموماً ایک جملہ ایک خیال اپنے ذہن میں بسا لیتے ہیں کہ
”لوگ تو ربسے بھی راضی نہیں ہوتے ہم کیا چیز ہیں۔ یقین مانےے یہ جملہ میں نے اکثر لوگوں سے سنا۔ میں نے غور کیا کہ بات تو ٹھیک ہے مگر کتنی ٹھیک ہے؟ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ میں کسی سوال کا جواب تلاش کروں تو کہیں نہ کہیں سے اس کا جواب مجھے مل جاتا ہے۔ یا میری شعوری کوشش جو دلی خواہش کے ساتھ جڑ جاتی ہے اور پھر جواب تلاش کرہی لیتی ہے۔ مجھے اس سوال کا جواب بھی اندر ہی کہیں سے ملا کہ بھلا ہم انسان یہ بات کیسے کرسکتے ہیں جبکہ ہمیں تو ایک دوسرے کی پرواہ کیلئے ہی پیدا کیا گیا ہے۔ رب ہمیں خوشی دے یا غم، تکلیف دے یا راحت وہ بااختیار ہے۔ اس کی مرضی وہ بے نیاز ہے۔ مگر پھر بھی ہمارا ایمان ہے کہ وہ ہر حال میں ہماری پرواہ کرتا ہے۔ کسی بھی صورت ہمیں اکیلا تو نہیں چھوڑتا۔
ہم انسان یہ اختیار نہیں رکھتے کہ کوئی ہم سے خوش ہو یا نہ ہو ہم اس کی پرواہ نہ کریں۔ ہمارا تو فرض ہر ممکن طور پر دوسروں کو خوش رکھنا ہے یا کم از کم کوشش کرنا ہے۔ غلط فہمی کی صورت میں وضاحت کرکے اس غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ پھر بھی کوئی خوش نہ ہو تو چلیں سوچ لیں کہ ہم کرچکے اپنی سی کوشش اب اللہ پر چھوڑیں۔ ویسے ایسا نہیں ہوتا کہ کسی کو منایاجائے اور وہ نہ مانے۔ ہماری دادی اماں کہا کرتی تھیں۔
”روٹھنے والے سے منانے والا طاقتور ہوتاہے“
تو ہم اللہ سے بھی اگر شکایت کرتے ہیں تو دراصل اس سے اپنائیت کا اظہار ہی کررہے ہوتے ہیں تو ہم ایسا کیوں نہیں سوچتے کہ جس شخص کو ہم سے شکایت یا غلط فہمی ہے وہ دراصل ہم سے کچھ توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں اور جب ان کے خلاف ہوتا ہے تو یقینا دکھ ہوتا ہے اور شکایت پیدا ہوتی ہے۔ بطور انسان ہم سب کو ایک دوسرے سے توقعات ہوتی ہیں۔ تو جہاں شکایت ہو پھر ہمارا فرض بنتا ہے کہ اپنی ”انا“ کو”Side line“ کردیں اور سامنے بٹھا کر کچھ باتوں کی وضاحت کردیں تاکہ شکایت اور غلط فہمی کا خاتمہ ہوجائے۔ صرف دو ہی راستے ہیں یا پرواہ نہ کرو یامعذرت کہہ کر جان چھڑاو¿۔۔۔۔غالباً پرانے وقتوں میںانا کے برج اونچے نہ ہونے کی وجہ ”مل بیٹھ کر بات کرنے کا وقت“ تھی۔ لوگ ایک دوسرے سے شکایت کااظہار کرتے اور دوسرا گھنٹہ آدھ گھنٹہ اپنی انسانی غلطی کا شاخسانہ کرتا، وضاحتیں کرتا اور شکایت دور کرکے ہی اٹھتا۔ یوں بات آگے نہ بڑھ پاتی۔ اب لوگ ذاتیات کے حصار میں محصور رہتے ہیں۔ مادی ضروریات زندگی روحانی تقاضوں پر حاوی ہیں۔ اب لوگ یا تو کسی کی پرواہ نہیںکرتے کہ کوئی ان کے بارے میں کیا کہتا ہے کیا سوچتا ہے اور اگر شاذو نادر پرواہ ہوتی بھی ہے تو وقت ہی نہیں کہ مل بیٹھ کر شکایتوں کو دور کرلیاجائے البتہ کہیں کوئی مطلب ہے کسی سے کوئی کام ہے تو ہمارا وقت اسی کے نام ہوتا ہے۔
باتیں بہت سی ہیں مگر شاید بے سود۔۔۔۔۔
کیونکہ جو بھی لکھ لیں پڑھ لیں۔ ہم نے سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔ خود کو بدلنا چھوڑ دیا ہے اور ہم صرف اپنی اپنی دنیا میں مست اپنی اپنی ضروریات کے محور کے گرد گھوم رہے ہیں۔ اب ہمارے پاس ”پڑھنے“ کا بھی وقت نہیں اور جب ہم نے پڑھنا نہیں غور نہیںکرنا تو بدلنا کیسا۔۔۔۔لیکن پھر بھی یہ ہی کہوں گی اس امید کو عملی صورت میں پیش کرنا ہمارے لئے اس لئے بھی ضروری ہے کہ در حقیقت ہماری ”بقا“ ”انا“ کی فنا میں ہی ہے۔ کہتے ہیں انسان مرتا اس وقت ہے جب کسی کے دل میں زندہ نہ رہے۔ ہماری”انا“ ہمیں جیتے جی ماردینے کا کام کرتی ہے۔ آئےے دلوں میں زندہ رہنے اور ہمیشہ زندہ رہنے کا بندوبست کریں۔ آئےے اپنی انا کو فنا کرکے مقام بقاحاصل کریں۔
اس ”میں“ سے جو بچ جائے وہ پالے گا راز زندگی
کہ”میں “ختم ہوتی ہے تب ملتی ہے انسان کو بقا
موج حیات ِ جاوداں قسمت اسکی لکھ گئی
جو”تو“میں کھو کے کرگیا اپنی انا کو ہی فنا
اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”انا“ کی ”فنا“
Sep 21, 2016