یوسف عباس اور برادران یوسف

نہ تو موصوف چیف آف آرمی سٹاف کے در دولت پر حاضری دیتے ہیں، نہ وہ حکمرانوں کے بچوں کی شادیوں اور سالگرہوں میں شرکت کرتے ہیں۔ نہ وہ وفاقی، وزیروں، مشیروں اور اعلیٰ عہدے داروں سے ذاتی روابط استوار کرنے کی تگ و دو کرتے ہیں۔ نہ ان کے بیٹے کا کوئی اندرونی بیرونی سکینڈل سامنے آیا ہے۔ نہ ہی وہ کسی معروف کو اتنا سر پر بٹھا لیتے ہیں کہ وہ اسکا ڈرائیور تک بن جانے پر تیار ہو جائے۔ اور نہ وہ ہر وکیل کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔ اور نہ انکے کہنے پر کسی معاشرتی مجبوری کا بہانہ بناتے ہوئے پارٹی کے سربراہوں کے گھر پہنچ جاتے ہیں نہ انکا کوئی کزن وزیر ہے نہ ہی وہ روزانہ درجنوں ازخود نوٹس لیکر جلالی بننے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسی لئے میں سمجھتا ہوں کہ سابق وزیراعظم جمالی کی طرح پاکستان کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ پاکستان کی عدلیہ آجکل آزاد ہے مگر نجانے برادر یوسف طاہر القادری کو عدلیہ پر بھی اعتبار کیوں نہیں وہ کہتے ہیں کہ شریفوں کی شوگر ملز میں بھارتی کام کر رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ آجکل تو انقلابی چیف جسٹس سید منصور علی شاہ یہ کہتے ہیں کہ ہر جج کو فیصلہ چھ ماہ کے اندر کردینا چاہئے یہ کوئی مشکل اور انوکھی بات نہیں۔ مگر طاہر القادری نے عدلیہ کے منصفین کی بات پر بلکہ ان پر اعتماد نہیں کیا۔ شائد اسلئے یہ کہ لاہور ہائیکورٹ ان کا بھانڈہ اور بھرم پہلے ہی پھوڑ چکی ہے۔
میرے خیال میں حکومت کو اور کچھ بھی نہیں کرنا چاہئے۔ وہ ہائیکورٹ کا فیصلہ مشتہر کر دے، حکومت نے قانون کا احترام کیا۔ اور کہا کہ طاہر القادری کو قانونی نوٹس بھجوا دیتے ہیں۔ جبکہ یوسف عباس جوکہ عباس شریف مرحوم جو میاں نواز شریف کے چھوٹے بھائی تھے۔ اور سیاست سے بالکل سروکار نہیں رکھتے تھے۔ وہ تبلیغی جماعت کے فعال کارکن تھے اور اپنی عملی زندگی اسلام کے اصولوں کے مطابق گزارتے تھے، ان کے بیٹے ہیں اور وہ بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاست سے کوسوں میل دور ہیں۔ پیسے کی ہوس میں اپنے مخالفین کے رشتہ داروں کو بھی میدان دشنام طرازی میں گھسیٹنا غیر اخلاقی حرکت ہے۔ بقول عباس شریف ہمارے تمام کے تمام ملازمین پاکستان ہیں۔ عوام کو دکھ اس بات کا ہے کہ آجکل مودی کی یہودی لابی کی قربت، تعاون اور آشیر باد کی بدولت سینکڑوں کشمیری شہید، زخمی لہو لہو اور نوجوان نسل کو نابینا اور اپاہج بنادیا گیا ہے اور بنگلہ دیش میں بھی مودی، درگا دیوی سے جماعت اسلامی کے بزرگ اور پاکباز محب وطن کو تختہ دار پر لٹکا رہا ہے۔ تف ہے ہاری سیاست پر ہم نجانے کون سے مذہب کے پیروکار ہیں کہ حضورؐ کی ہدایات اور فرمان کے بالکل برعکس عمل پیرا ہیں۔
کاش ہم کچھ دنوں کیلئے مسئلہ کشمیر کی خاطر ایک اپوزیشن اور حکومتی موقف اپنا کر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کیلئے وقتی طور پر اکٹھے نہیں ہوسکتے، جھوٹ کو سچ، اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کے لئے گھنٹوں، مہینوں، بلکہ سالوں تک ایک موضوع پر بولنے اور دلائل کے انبار لگادینے والے طاہرالقادری، باقی مصروفیات ترک کرکے اپنی دُنیا کی بجائے آخرت سنوارنے کیلئے مسئلہ کشمیر کو عالمی فورمز پر اٹھانے اور اُسکی وکالت کرکے کروڑوں عوام کا دل کیوں نہیں جیت لیتے؟ کیونکہ آجکل کشمیر کا ہر فرد زخم خردہ بے کل، مجبور، مقہور اور بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے۔ بقول مظفر شاہ:
سُوچیں ساکت … ہونٹ مقفل
اور آنکھیں ہیں پتھرائی … لوگ کہیں اَب
میرے گھر میں … آزادی کی رُت آئی
آج وزیراعظم اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر اس وقت اُجاگر کرنے اور پاکستان کا موقف ، مُدلل، ٹھوس شواہد و حقائق اور ہزاروں بلکہ لاکھوں قربانیوں کی وجوہات و مضمرات کو آشکار کررہے ہیں جیسے اقبال کے فلسفہ فکر ونظر کے مطابق
اقبال کو شک اسکی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملتِ مظلوم کا یورپ ہے خریدار!!
ملک و قوم اس وقت ترقی یافتہ اور دُنیا میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے قابل ہوتے ہیں، جب وہ اپنی ترجیحات اور ملکی مفاد میں ابراہام لنکس سے لیکر اوبامہ تک، حزبِ اقتدار اور حزبِ مخالف ایک مؤقف اپناتے اور خواہ وقتی طور پر ہی سہی متحد ہو جاتے ہیں اور پوری دنیا پر حکمرانی کرتے ہیں۔ عمران کی پشت پر کونسی قوت ہے ، اُس سے اجازت لیکر اگر عمران، کشمیر کی آزادی کی خاطر کچھ دنوں کیلئے اور طاہرالقادری بھی مظلوم کشمیریوں کی خاطر اپنا احتجاج ملتوی کردیں، تو یہ کچھ کئے بغیر عوام کا دل جیت سکتے ہیں۔ دونوں کا ڈنڈوں اور ڈنڈ بیٹھکوں کا مظاہرہ جاہلانہ عمل ہے لیکن ان دونوں سیاستدانوں نے کشمیر کیلئے ایک دھیلے کا کام نہیں کیا، حضورؐ کے نام کو استعمال کرکے سیاست کرنے والے یہ سیاستدان کشمیریوں کو کیوں مسلمان نہیں سمجھتے، روزِ محشر اللہ اور اللہ کے حبیبؐ کو یہ کیا مُنہ دکھائیں گے اور کیا جواب دیں گے، عمران خان نے تو حج پر بھی جانے سے انکار کردیا۔ اور کہا کہ میں نے رائے ونڈ دھرنا دینا ہے ،لہٰذا حج پر نہیں جاسکتا میاں نوازشریف کم ازکم یہ تو ضرور کہہ سکتے ہیں کہ کشمیر کی آزادی کیلئے …ع
کوشش ضرور کی ہے دلِ بے قرار نے

ای پیپر دی نیشن