عمران خان کا رائے ونڈ مارچ اور تصادم

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ رائے ونڈ کسی کے باپ کی جاگیر نہیں‘ تیس ستمبر کو ہر حال میں رائے ونڈ مارچ کیا جائیگا‘ گلو بٹوں یا پنجاب پولیس نے پر امن کارکنوں پر تشدد کیا تو ذمہ دار شریف برادران‘ پنجاب حکومت اور پنجاب پولیس ہوگی‘ اسکے بعد پورے پنجاب میں مظاہرے کئے جائینگے ‘ اب تبدیلی کا وقت آگیا ہے سوئی ہوئی قوم کو ہر حال میں جگایا جائیگا۔ تیس ستمبر کو ملکی تاریخ کا بڑا اجتماع ہوگا ‘ کارکن چوبیس ستمبر سے رائے ونڈ مارچ کی تیاریاں اور چندہ اکٹھا کرنا شروع کر دیں میں خود بھی چندہ جمع کروں گا۔ بنی گالہ میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی چوری کی بات کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کو خطرہ ہے‘ پاکستانیوں کے سامنے دو راستے ہیں ایک راستہ یہ ہے کہ ہم اربوں روپے کی کرپشن بھول کر اداروں کو تباہ ہونے دیں اور 2018ء کے انتخابات کا انتظار کریں۔ غریبوں اور امیروں کیلئے الگ الگ قانون ہو اور ملک کا سب سے بڑا ڈاکو وزیراعظم بن جائے‘ اگر ہم معاملہ عدالت میں لے کر جائیں تو سپریم کورٹ کے رجسٹرار اسے مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے مسترد کردیں۔ ہمارے پاس دوسرا راستہ نیا پاکستان بنانے کا ہے اور اسی راستے کو ہم نے چنا ہے۔ ہم ثابت کرسکتے ہیں کہ نواز شریف اربوں روپے چوری کرکے ملک سے باہر لے گئے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے وزیراعظم محمد نواز شریف کی ذاتی رہائشگاہ سے 5 کلو میٹر دور اڈہ پلاٹ پر 30 ستمبر کو احتجاجی جلسہ کرنے کے اعلان سے مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے کارکنوں کے درمیان تصادم کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ جلسہ دھرنے کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں نے 2014ء میں پارلیمنٹ ہاؤس اور وزیراعظم ہاوش کا رخ کر لیا تھا۔ اسی طرح وہ رائے ونڈ جلسہ کے بعد جاتی امراء میں وزیراعظم کی رہائشگاہ کا رخ کرسکتے ہیں اور وزیراعظم کی ذاتی رہائش گاہ کو تخریب کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت عمران خان کے احتجاجی جلسہ سے پیدا ہونیوالی ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے مل کر حکمت عملی تیار کریگی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار کے درمیان رواں ہفتے اسلام آباد یا لاہور میں ملاقات ہوگی جس میںاہم فیصلے ہونگے۔ حکومت پنجاب رائے ونڈ جلسہ کے شرکاء کی ممکنہ تعداد کو پیش نظر رکھ کر اجازت دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کریگی۔ حکومت کے ایک ذمہ دار عہدیدار نے خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ عمران کو رائے ونڈ میں جلسہ کرنے کی اجازت دینے کا رسک نہیں لیا جاسکتا‘ عمران 2014ء میں بھی کمٹمنٹ کی خلاف ورزی کرکے ریڈزون میں داخل ہوگئے تھے بعد ازاں وزیراعظم ہاؤس پر حملہ کر دیا گیا۔ حکومتی عہدیدار کے مطابق اگر ہجوم 10ہزار سے تجاوز کر گیا تو وہ پولیس سے کنٹرول نہیں ہوسکے گا حکومت ایسی حکمت عملی اختیار کریگی جسکے تحت پنجاب کے داخلی راستوں سے جلوسوں کو داخل ہونے سے روکا جائیگا جس سے پنجاب کے مختلف شہروں میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کے درمیان تصادم کا امکان بڑھ جائیگا۔ سیاسی مبصرین کے مطابق تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے 30 ستمبر کو شریف خاندان کی رہائش گاہ رائے ونڈ پر لانگ مارچ کے اعلان نے جمہوری حلقوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کے بعض عاقبت نااندیش ساتھیوں اور پارٹی رہنماؤں کے رویہ اور مارچ کو روکنے کے دعوؤں اور ڈنڈا بردار فورس بنانے کے عمل نے خدشات کو مزید بڑھا دیا ہے ۔اگر پی ٹی آئی کے رائے ونڈ کی جانب مارچ اور (ن) لیگیوں کی جانب سے اسکی مزاحمت اور اپنے قائد نواز شریف کے گھر کی حفاظت کے نام پر اس کو روکنے کی کوشش لازمی نتیجہ انتہائی سنگین تصادم کی صورت میں نکلے گا۔ دو بڑی جماعتوں کے کارکن اشتعال میں آ کر سیاسی اکھاڑے کو میدان جنگ میں تبدیل کر دیں ‘ ہاتھ پاؤں ٹوٹیں‘ سر پھٹیں ‘ عام کارکنوں کا خون بہے‘ پولیس کی کارروائی ہو‘ خدانخواستہ لاشیں گریں‘ اس کا ممکنہ نتیجہ یہ ہونے کا خدشہ ہے کہ غیر جمہوری ‘ جمہوری قوتوں کو جمہوری عمل کے ناکام ہونے کا بظاہر اور ’’ٹھوس جواز‘‘ مل جائیگا اور ’’ریفری کی انگلی اٹھ جائیگی‘‘ جس کا عمران خان کو اپنے سابقہ دھرنے سے انتظار ہے۔ اسلام آباد میں دھرنے کے دوران وہ ’’ریفری کی انگلی اٹھنے والی ہے‘‘ کی بات مسلسل کرتے رہتے تھے لیکن ’’ریفری‘‘ نے منتخب حکومت کو ’’آؤٹ‘‘ قرار دینے سے گریز کیا تھا۔ حکومت نے عقل مندی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے انکی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈالی تھی‘ وہ خالصتاً سرکاری معاملہ تھا ‘ اس لیے تحمل کا مظاہرہ کیا گیا۔ عمران خان شاید اس نکتہ اور باریکی کو سمجھ گئے اور انہوں نے ’’معاملے کو ذاتی معاملے میں تبدیل‘‘ کرکے (ن) لیگ کو مشتعل کرنے کا منصوبہ بنایا کہ ذاتی معاملے میں انسان صبر کا دامن جلد چھوڑ دیتا اور اشتعال میں آکر جوابی کارروائی کر بیٹھتا ہے۔ عمران خان اب تک اشتعال دلانے میں بظاہر کامیاب رہے ہیں ۔ (ن) لیگ کے بڑے اور چھوٹے رہنما ان کے مارچ کو روکنے کا اعلان کر رہے ہیں اور ’’رائے ونڈآنے والوں کی ٹانگیں توڑنے‘‘ کے دعوے کر رہے ہیں۔ لیگی شیروں کی ڈنڈا بردار فورس بنا دی گئی۔ ان کو تربیت بھی دی جا رہی ہے۔ گویا تصادم‘ لڑائی جھگڑے‘ خون خراب کا اسٹیج پوری طرح تیار ہے اور ’’ریفری کی انگلی اٹھنے پر تیار ہے‘‘ سیاسی و عوامی حلقے پریشان ہیں کہ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو ملک کیلئے تباہ کن ہوگا۔ جمہوریت کو نقصان پہنچنے کا مطلب کئی برس پیچھے چلے جانا ہوگا۔ بکریاں لڑتی رہ جائیں گی مکھن کوئی اور کھا جائیگا۔ 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے نتائج سب کے سامنے ہیں جب پیپلز پارٹی کا اقتدار ختم ہوگیا تھا اور حزب اختلاف کے ہاتھ بھی کچھ نہ آیا تھا۔ ضیاء آمریت کے گیارہ سال ملک و قوم کو بھگتنا پڑے تھے۔ پیپلز پارٹی اس سابقہ تجربے کے باعث تحریک انصاف کو رائے ونڈ مارچ سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پی پی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کو ادراک ہے کہ جمہوری عمل نہ ہونے کا بڑا نقصان پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کو ہی ہوگا۔ اے این پی‘ جماعت اسلامی‘ جے یو آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتیں بھی اس مارچ کے اثرات و نتائج کو سمجھتی ہیں۔ اسی لیے پی ٹی آئی کا ساتھ دینے سے گریزاں اور ’’گھروں پر دھرنے‘‘ کی نامناسب اور غیر اخلاقی سیاست سے باز رہنے کا مشورہ دے رہی ہیں مگر عمران خان کچھ سننے اور سمجھنے پر تیار نہیں۔

ای پیپر دی نیشن