’’اس حمام میں سب ننگے ہیں‘‘ محاورہ عموماً استعمال ہوتا ہے، اس کا مطلب لیا جاتا ہے کہ سب کسی برائی میں یکساں مبتلا ہیں۔ ہمارے ہاںجس طرح کے حمام ہیں، ان میں وہ لوگ بھی اس حالت میں ہوں جس کا ذکر کیا گیا ہے تو یہ تعجب خیز سے زیادہ معیوب ہے۔ ہمارے ہاں حمام اور حجام ہم قافیہ ہی نہیں ان کا تعلق بھی پُر پیچ ہے۔ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ جہاں حمام وہاں حجام۔ حمام کے ذکر پر مجھے ایک واقعہ یاد آجاتا ہے۔ ایک بڑے گائوں میں ہمارے عزیزوں کی بیٹی کی شادی تھی۔ رات وہیں بسر کی۔ صبح میں گائوں کے دوسرے کونے پر واقع گرم حمام میں چلا گیا۔ شیو بنوائی اور شدید سردی میں گرم پانی سے نہایا۔ حجام کو پیسے دینے لگا تو اس نے کہا۔ ’’راجہ صاحب رہنے دیں‘‘۔ میں نے دوسری اور تیسری بار اصرار کیا تو بھی انکار۔ وہ مجھے راجہ صاحب کہہ رہا تھا، ان دنوں راجہ پرویز اشرف وزیر اعظم تھے۔ میں نے بڑے سائز کے شیشے میں اپنی شکل دیکھتے ہوئے راجہ پرویزاشرف کے ساتھ مماثلت تلاش کرنے کی کوشش کی۔ خلیفہ صاحب واقعی پیسے لینے پر تیار نہیں تھے۔ میں نے گھر آکر اپنے میزبانوں کو حجام کے پیسے نہ لینے کا واقعہ سنایا۔ انہوں نے کہا کہ حمام شیدے حجام کا ہے۔ حمام سے تین چار گھر چھوڑ کر گلی میں شیدے کے تائے کی بیٹی کی شادی ہے۔ شیدے نے آپکو اپنے تائے کا مہمان اور اپنی برادری سمجھ کر پیسے نہیں لئے۔ انکی باتوں کے دوران میں سوچ رہا تھا، حمام میں رش ہوتا تو شیدا مجھے ہاتھ بٹانے کو بھی کہہ سکتا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ شیدے کے تائے نے شیدے کو کسی مہمان سے پیسے لینے سے منع کر دیا تھا۔ اسے کہا تھا کہ شام کو مہمانوں کی نہلائی، حجامت کرائی اور شیو بنوائی کے جتنے پیسے بنیں، اس سے لے لے۔ اسکے تین بیٹے عرب ریاستوں میں ’’راجہ گری‘‘ کرتے تھے اور وہ خود حج کے دنوں میں اپنے اوزار لے کر سعودی عرب چلا جاتا تھا۔
ہر شہر اور قصبے کی طرح اس گائوں میں بھی ایسا حمام نہیں تھا جو کالم کے شروع میں دیئے گئے محاورے پر پورا ہو سکتا ہو۔ یہ حمام تو اتنا تنگ تھا کہ ایک آدمی بھی کھل کر حرکت نہیں کر سکتا۔ جس حمام میں سب ننگے ہوتے ہیں وہ آج بھی سرد ترین علاقوں میں موجود ہیں۔ جدید سہولتوں کے باعث انکی تعداد میں یقیناً کمی آئی ہے۔ کوئٹہ میں ایسے حمام دیکھے جا سکتے ہیں۔
بڑی تعداد میں افراد کے غسل کیلئے ضرورت کے مطابق ایک یا ایک سے زیادہ کمرے بنائے گئے ہوتے ہیں۔ انکے گرد پانی گرم کیا جاتا ہے۔ پانی کو اندر لے جا کر اس دور کے ٹبوں یا ہودیوں میں ڈال دیا جاتا۔ ان حماموں کی خاصیت یہی ہے کہ ابلتے پانی کی بھاپ کو حمام میں لایا جاتا تھا جس سے اندر کا منفی منفی درجہ حرارت بھی معتدل ہو جاتا۔ یوں حمام میں جانے والے وہاں گھنٹوں بیٹھے رہتے۔ ایک ہی حمام میں سب لوگ بھاپ اور گرم پانی کو انجوائے کرتے۔ کسی نے تہہ بند باندھا ہوتا کسی نے کچھا نما کوئی چیز چڑھائی ہوتی۔ اس حالت کو بھی ننگا کہا گیا ہے۔ بعض حماموں میں نہلانے والے بھی ہوتے، انہیں حمامی کہا جاتا ہے۔
لاہور میں مغل دور کا ایک بہت بڑا حمام تھا جو کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا جس کو اب آرائش کرکے سیاحت کیلئے کھول دیا گیا۔ حمام کی ہیئت اور افادیت کو مزید سمجھنے کیلئے شاہی حمام کی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں:
لاہور میں دلی دروازے سے کوتوالی تک ڈیڑھ کلو میٹر لمبی سڑک کئی سو سال پہلے بادشاہوں کا راستہ ہونے کی وجہ سے شاہی گزر گاہ کہلاتی ہے۔ یہیں پہ شاہی حمام بھی تھا۔ یہ حمام مغلیہ حکومت کے صوبے دار حکیم علم الدین انصاری نے بنوایا۔ وسطی ایشیاء اور ایرانی حماموں کی طرز پر بنا یہ حمام عوام اور خواص مسافروں اور شہر کے باسیوں کے استعمال میں رہا۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد لاہور شہر کی بگڑتی اور بدلتی تاریخ میں شاہی حمام گم ہو کررہ گیا۔ 1000 سے زائد مربع میٹر احاطہ میں قائم ایک منزلہ عمارت ہے۔ 21 کمروں اور گرم اور ٹھنڈے غسل کیلئے آٹھ آٹھ تالابوں پر مشتمل ہے۔ پانچ کمرے بھاپ غسل کیلئے مخصوص تھے۔ چھتوں اور دیواروں پر شاندار پھولوں کی پینٹنگز ہیں۔ حمام میں روشنی کا واحد ذریعہ روشن دان تھے۔ پرتعیش مساج کیلئے خصوصی کمرے تھے۔ خواتین کیلئے خواتین عملہ تھا۔ خواتین کیلئے دن بھی مخصوص تھا۔
کھدائی ہوئی تو حیرتوں کا ایک جہان ملا۔ چینی مٹی اور مٹی کے نوادرات، بھٹیوں کا جال، پانی کی پیچیدہ گزر گاہیں، گرمی کو محفوظ کرتی اینٹیں، چھوٹے چھوٹے ستونوں پر مشتمل حرارت اور بھاپ کا نظام، ٹھنڈے پانی کے فوارے، مساج کیلئے جگہیں۔۔۔
شاہی حمام کی بحالی اور تزئین وآرائش کا کام 2012ء میں ناروے کے سفارت خانے کے مالی تعاون سے شروع کیا گیا تھا اور شروع میں آغا خان ٹرسٹ فار کلچر نے اس پر کام کیا، جس پر تقریباً ساڑھے چار کروڑ روپے کی لاگت آئی اور یہ منصوبہ 2014ء میں تکمیل کے بعد سیاحوں کیلئے کھول دیا گیا۔ 1634ء میں تعمیر کئے گئے مغل دور کے شاہی حمام کو بہترین بحالی، حفاظت، تزئین و آرائش پر ’یونیسکو ہیریٹیج ایشیاء پیسفک ایوارڈ آف میرٹ 2016‘ دیا گیا ہے۔ وسطی ایشیائی ریاستوں میں ایسے حمام جدید سہولتوں کے بعد ناپید ہو گئے ہیں۔ جرمنی کی سرحد سے لے کر ثمرقند اور بخارا (ازبکستان) کے افغان کے بارڈر تک گھروں میں گرم اور ٹھنڈا پانی پہنچا دیا گیا ہے۔ گھروں میں حکومت نے ہیٹر بھی فراہم کر دیئے ہیں۔ بجلی فری، وافر اور ایک لائن میں نقص کی صورت میں دوسری لائن متبادل کے طور پر موجود ہے۔
کشمیر میں اجتماعی حمام موجود ہیں۔ کشمیر میں ایسے حماموں کو صوف خانے کہا جاتا ہے۔ کشمیر میں روٹی پکانے والے کو صوفی اور بیچنے والے کو کاندرو کہتے ہیں۔ کشمیر میں اس پیشے کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ صوفی تبسم بھی اپنے اسلاف کے اسی پیشے سے وابستگی کی بنا پر خود کو صوفی کہلاتے تھے۔ آغا شورش کاشمیری اپنے دادا کے صوفی ہونے پر فخر کا اظہار کیا کرتے تھے۔ پاکستان میں ایسے کام کرنیوالوں کو نانبائی کہا جاتا ہے۔ اس میں مزید وقار کا عنصر شامل کرنے کیلئے بیکر کہلاتے ہیں۔ کشمیر میں صوف خانے کا تصور وسطی ایشیاء سے حسن کی منتقلی کے ساتھ ہی جہاں منتقل ہوا۔ سری نگر سے باہر اس دور میں حسن والوں کے محلے کو تاشوان کہا جاتا تھا۔ دلی کے لٹنے کے دور میں تاشوان بھی اجڑ گیا تھا۔
’’ہم حمام میں ننگے ہیں‘‘ محاورے کو انہی معنوں میں لیں جن میں یہ مستعمل ہے تو کردار‘ افکار اور افعال کے حوالے سے ہم سب اس حمام میں داخل ہیں۔ سیاست دان کیا‘ تاجر‘ جج‘ جرنیل‘ جرنلسٹ اور ہر طبقہ اور حلقہ کے لوگ۔ مگر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے کارکن اس حمام میں زیادہ ہی سرمست نظر آتے ہیں۔ اپنے لیڈروں کی طرح انکی زبان سے کلمہ خیر کے سوا سب کچھ نکلتا ہے۔ (ن) لیگ‘ پی پی پی‘ متحدہ‘ پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے کارکن عموماً فیس بک پر دوسروں کیلئے زہر آلود زبان استعمال کرتے ہیں‘ ایسے کمنٹس اپنی فیملی کے سامنے نہیں دہرا سکتے ہیں۔