وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف آج اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اکہترویں اجلاس سے خطاب کرنیوالے ہیں۔ ایسے وقت میں جبکہ ایک طرف مقبوضہ جموں و کشمیر میں حصول آزادی کی حالیہ لہر کے دوران بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 100 کے قریب نہتے کشمیری شہید اور پیلٹ گن شاٹس کے نتیجے میں بینائی سے محروم ہونیوالے سات سو افراد سمیت 12000 کے قریب زخمی ہو چکے ہیں اور دوسری طرف بلوچستان اور کراچی میں ہونیوالے تخریب کاری کے واقعات میں بھارتی خفیہ ایجنسی راء کے ملوث ہونے کے شواہد سامنے آنے کے باوجود بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نہ صرف بلوچستان سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا بلاجواز واویلا کر کے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مرتکب ہو رہے ہیں بلکہ بنگال میں مکتی باہنی کی بھارتی سرپرستی اور شانہ بشانہ امداد کا برملا اعتراف کرتے ہوئے اپنے سابقہ کرتوتوں پر ندامت کی بجائے ڈھٹائی کا نمونہ پیش کر رہے ہیں۔ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کا منہ یہاں تک کھل گیا ہے کہ اس نے بلوچستان میں بھارتی امداد سے جاری تخریب کاری کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف روزیوں کا رنگ دیکر بلوچستان کا مسئلہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں اٹھا یا ہے۔ کونسل سے خطاب کے دوران اقوام متحدہ میں بھارت کے مستقل نمائندے اجیت کمار نے کہا ہے کہ آزاد کشمیر اور بلوچستان میں پاکستانی فوج انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی مرتکب ہو رہی ہے۔ ایسے منظر نامے میں عوامی حلقے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے اس بار وزیراعظم کے خطاب کو خاصی اہمیت دے رہے ہیں۔ عوام سمجھتے ہیں کہ اس بار بھارت کا مکروہ چہرہ ہر صورت بے نقاب کرنا ضروری ہے لہٰذا امید وابستہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ وزیراعظم کسی لگی لپٹی کے بغیر اقوام متحدہ کی توجہ دہشتگردی کے اصل ہیڈ کوارٹر بھارت کی جانب مبذول کروانے میں پوری دلچسپی لیں گے۔ مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کیلئے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوج کے حالیہ مظالم اور رائے شماری کے حوالے سے سلامتی کونسل کی قراردادوں کی جانب پرزور توجہ دلوانا تو وزیراعظم کے پروگرام میں شامل ہے۔ افغان مہاجرین کی رضا کارانہ وطن واپسی کیلئے بین الاقوامی برادری پر زور ڈالنا بھی وزیراعظم کے ایجنڈے پر ہے۔ یہ سب انتہائی ضروری امور ہیں اور وزیراعظم ان پر بات بھی کرینگے۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کے علاوہ چینی ہم منصب، ایرانی صدر اور سعودی کرائون پرنس سے ملاقاتیں بھی متوقع ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ حالیہ صورتحال میں قوم اپنی قیادت سے کیا تقاضا کر رہی ہے۔ میرے نزدیک وزیراعظم کے اس دورے کے حوالے سے تین باتیں زیادہ اہم ہیں جو اس وقت قوم کی توجہ کا مرکز ہیں۔ پہلے نمبر پر مسئلہ کشمیر۔ دوسرے نمبر پرپاکستان میں دہشتگردی کے حوالے سے بھارت کو بے نقاب کرنا اور تیسرے یہ کہ نیوکلیئر سپلائر گروپ (این ایس جی) کی رکنیت کیلئے کام۔ مسئلہ کشمیر پر اگر محض روائتی انداز میں بات ہوتی ہے تو اس سے بھارت کی صحت پر فرق پڑنے کی امید نہیں کی جا سکتی۔ وزیراعظم کشمیر کا تنازعہ ٹھوس انداز میں اجاگر کرنے کا وعدہ بھی کر کے گئے ہیں لہٰذا اس بار قوم توقع رکھتی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف جنرل اسمبلی کے فلور پر بین الاقوامی برادری کا ضمیر جھنجھوڑتے ہوئے یہ ڈٹ کر مطالبہ کرینگے کہ اقوام متحدہ کم از کم یہ تو پوچھنے کی جسارت کرے کہ بھارت سلامتی کونسل کی قراردادوں کے باوجود مقبوضہ جموں و کشمیر میں رائے شماری کے راستے میں رکاوٹ کیوں بنا ہوا ہے۔ مانتے ہیںکہ باب 6 کی قراردادوں پر عملدرآمد سے گریز کے نتیجے پر اقوام متحدہ کا ادارہ فوج کشی نہیں کر سکتا لیکن یہ ادارہ کیا یہ بھی نہیں پوچھ سکتا کہ بھارت 1948ء سے لیکر آج تک سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کرنے میں کیوں ناکام رہا ہے۔ کیا یہ بھی نہیں پوچھا جا سکتا کہ بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب ہونے کے باوجود اقوام متحدہ کی انسانی حقوق سے متعلق ٹیم کو اعداد و شمار جمع کرنے کیلئے رسائی دینے سے تاحال کیوں گریزاں ہے۔ قوم کشمیر کے حوالے سے کم از کم اس نوعیت کی پیشرفت لازمی چاہتی ہے۔ جہاں تک بلوچستان اور کراچی میں بھارتی ہاتھ ملوث ہونے کا تعلق ہے تو اس حوالے سے حکومت کے پاس تو شواہد ہیں ہی، بلوچستان سے کلبھوشن یادیو نیٹ ورک کی گرفتاری کے بعد قوم یہ توقع رکھتی ہے کہ بھارت سے اس مکروہ سازش کا حساب لیا جائیگا۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ ثناء اللہ زہری بھی برملا طور پر بھارت کے ملوث ہونے کے حوالے سے شواہد کی موجودگی کا اعتراف کر چکے ہیں۔ بھارت نے اب اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں مسئلہ بھی اٹھا دیا ہے کراچی میں بھارتی ساختہ اسلحہ کی برآمدگی کے بارے بعض پولیس افسر پریس بریفنگ تک کر چکے ہیں تو حکومت پاکستان اب مزید کس بات کی منتظر ہے۔ لہٰذا قوم وزیراعظم سے بجا طور پر توقع رکھتی ہے کہ بھارت کا یہ مکروہ چہرہ جنرل اسمبلی میں بے نقاب کرنے سے گریز نہیں کیا جائیگا۔ نیوکلئیر سپلائر گروپ کی رکنیت کے حصول کیلئے بھارت نے دن رات ایک کر رکھا ہے چین کے سوا امریکہ برطانیہ روس فرانس اور جاپان سمیت تقریباً سب بڑی قوتیں بھارتی رکنیت کی حمایت کر رہی ہیں۔ اڑتالیس رکنی این ایس جی میں چین واحد بڑی قوت ہے جو بھارتی رکنیت میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ روسی صدر نے بیجنگ کو قائل کرنے کی یقین دہانی بھی بھارت کو کرائی ہے۔ اگر کسی طرح چین کو قائل کر لیا گیا تو بھارت کو این ایس جی کا رکن بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بھارت نے ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدے (این پی ٹی) پر دستخط بھی نہیں کئے ہوئے اور این ایس جی کا قیام بھی 1974ء میں بھارت کی طرف سے ایٹمی دھماکہ کرنے کے بعد عالمی تشویش کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بھارت اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود عالمی برادری میں بہتر پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب نظر آ رہا ہے اگر این ایس جی کا رکن بھی بن جاتا ہے توبھارت کی یہ کامیابی پاکستان کی خارجہ پالیسی اور معیشت کیلئے بڑے دھچکے سے کم نہیں ہو گی۔ لہٰذا اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے پاکستان کے پاس واحد حل یہ رہ جاتا ہے کہ این ایس جی کی رکنیت کیلئے درخواست کو کافی سمجھ رکھنے کی بجائے اپنی اہلیت ثابت کرنے کیلئے نہ صرف جنرل اسمبلی کے فورم سے استفادہ کیا جائے بلکہ سفارت کاری کے معیار کی بہتری پر توجہ دی جائے۔