امہ کے اتحاد اور چیلنجز سے نبردآزما ہونے کیلئے امام حسین ؓ کا کردار مینارہ نور ہے

یوم عاشور … باطل قوتوں کے آگے نہ جھکنے کے عہد کا دن
یوم عاشور پر آج 10؍ محرم الحرام کو اسلامیانِ پاکستان سمیت دنیا بھر میں امتِ محمدِ ؐ عربی دین اسلام کی سربلندی کیلئے نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدالشہداء حضرت امام حسین کی جانب سے میدانِ کربلا میں اپنی اوراپنے جانثار ساتھیوں کی دی گئی جانوں کی قربانیوں کی یاد تازہ کررہی اور سوگ منا رہی ہے۔ آج کا دن بلاشبہ باطل کے آگے سر نہ جھکانے اور یزیدی سوچ کو کسی صورت قبول نہ کرنے کے تجدید عہد کا دن ہے۔ نواسۂ رسولؐ حضرت امام حسین ‘ ؓ یزید کی بیعت سے انکار کرتے ہوئے 2 محرم الحرام 61 ہجری کو میدان کربلا میں ابلیسی غرور اور شیطانی سیاست کے مہروں کیخلاف صف آراء ہوئے اور اپنے 72 جانثار ساتھیوں سمیت یزیدی فوج کی سختیاں اور تین دن کی بھوک پیاس برداشت کرتے ہوئے 10 محرم الحرام کو شہادت کے درجۂ بلند پر سرفراز ہوئے۔ آپؓ نے تعداد میں کم اور نہتے ہونے کے باوجود جرأت و پامردی کی ایسی داستانیں رقم کیں جو رہتی دنیا تک امتِ مسلمہ کے حوصلے بلند کرتی رہیں گی۔ سیدالشہداء نے قوت ایمانی سے اسلام کا پرچم بلند رکھا اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے احیاء و تحفظ کیلئے یزیدی قوتوں سے ٹکرا کر جانوں کے نذرانے پیش کرنے کی نئی تاریخ رقم کی۔
آج دنیا بالعموم مسلم امہ اور بالخصوص دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے‘ عالمی امن تہہ و بالا ہوچکا ہے۔ افغانستان‘ شام‘ عراق بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں۔ دہشت گردوں کی دست برد سے پاکستان‘ سعودی عرب‘ ترکی‘ ایران بھی محفوظ نہیں۔ مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں پون صدی سے جاری بربریت اور سفاکیت میں کبھی کمی نہیں آئی۔ مسلمان ہی دہشت گردی اور ظلم و بربریت کا نشانہ بن رہے ہیں‘ اس پر ستم بالائے ستم کہ مسلمانوں کو ہی دہشت گردی اور بدامنی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر پابندیوں کی زد میں بھی مسلم ممالک ہی ہیں۔ ایران کے بعد پاکستان کو مثال کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ امہ کی زبوں حالی اور تباہی کے ذمہ دار بھی کافی حد تک ہم خود ہیں۔ مسلم ممالک کی تعداد 60 کے قریب ہے جو او آئی سی کے اتحاد میں پروئے ہوئے ہیں مگر نفاق اور انتشار نے اتحاد کو بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے فلسطینیوں اور کشمیریوں کو آزادی کا حق دلانے کی توقع تھی ایسا قطعی ممکن تھا۔ 60 ممالک متحد ہوں تو بڑی طاقت بن سکتے ہیں مگر یہ ممالک گروہوں میں بٹ گئے‘ کئی ایک دوسرے کیخلاف محاذ کھول چکے ہیں جس کا فائدہ طاغوتی قوتیں اٹھا رہی ہیں۔ مسلم ممالک کی تقسیم در تقسیم جاری ہے۔
پاکستان مسلم ممالک کے مابین اختلافات کی خلیج پاٹنے کیلئے کوشاں رہا ہے۔ آج وزیراعظم عمران خان سعودی عرب کے دورے سے واپس آئے ہیں۔ انہوں نے حلف برداری کے بعد سعودی عرب اور ایران کے مابین تعلقات میں کشیدگی کے خاتمے میں کردار ادا کرنے کی بات کی تھی۔ ان کا سعودی عرب کا دورہ کامیاب رہا جس میں مسلم ممالک کو درپیش مشکلات اور چیلنجز پر بھی بات ہوئی۔ سعودی عرب نے پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کیلئے تعاون کی یقین دہانی کرائی جبکہ عمران خان نے کہا کہ سعودی عرب پر حملے کو برداشت نہیں کیا جائیگا۔ سعودی فرمانروا شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان اور وزیراعظم پاکستان عمران خان نے مسئلہ کشمیر کے حل اور فلسطینیوں کے حقوق کیلئے مل کر کوششیں کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ عمران خان توہین آمیز خاکوں کیخلاف اقوام متحدہ میں قانون سازی کیلئے او آئی سی ممالک پر یک زبان ہو کر آواز اٹھانے کی ضرورت پر زور دے چکے ہیں۔ مسلم ممالک کو او آئی سی کے پلیٹ فارم پر متحدہ کرنے کی کوششیں راست سمت میں ہیں جو بارآور ہوتی نظر آرہی ہیں۔
دہشت گردوں کی سفاکانہ کارروائیوں پر نظر ڈالیںتو یزیدی دور یاد آتا اور واقعہ کربلا کے زخم تازہ ہو جاتے ہیں۔ اس دور میں معصوم بچوں کا بے دردی سے خون بہایا گیا اور عفت مآب خواتین کے ساتھ توہین آمیز سلوک روا رکھا گیا۔ آج بھی کئی مسلم ممالک میں بچوں کو قتل کیا جارہا ہے‘ خواتین کے ساتھ دہشت گرد بہیمانہ سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہونیوالے روح فرسا واقعات اسکی بدترین مثال ہیں۔ ایسے دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے حسینی جذبے کی ضرورت ہے۔ آج پاکستان میں یہ جذبہ پوری طرح بیدار ہے۔ چند سال قبل مملکت خداداد پر دہشت گردی کے مہیب سائے تھے۔ مساجد‘ مدارس‘ مزارات‘ امام بارگاہیں اور پبلک مقامات تک دہشت گردی کی لپیٹ میں تھے۔ ہماری حکومتوں نے مصلحتوں سے کام لیا اور دہشت کی علامت بنے گروپوں کی انسانیت سوز سرگرمیوں اور ریاست کے خلاف اقدامات سے صرف نظر کیا جاتا رہا۔ انسانیت کے دشمنوں کو مذاکرات کے ذریعے راہ راست پر لانے کی کوششیں کی گئیں۔ دامن میں خوف لئے ہوئے ایسی پالیسیوں سے ظلم بڑھتا ہے تو بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ حق اور سچ دبنے لگتا ہے‘ باطل کو تقویت ملتی ہے۔ حضرت امام عالی مقام نے حق اور سچ کی خاطر جان تو دیدی مگر باطل کے سامنے سرنگوں نہ ہوئے۔ اسکے بعد باطل مٹ گیا سچ سربلند ہوا ۔ ہمارے ہاں بھی باطل سے آنکھیں چرانے کا سلسلہ جاری رہا تو ظلم بڑھتا گیا۔ دور جدید کے یزیدوں کا ہاتھ ریاست کے گریباں تک پہنچا اور دہشت گرد دفاعی اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجانے لگے تو آپریشن ضرب عضب شروع ہوا۔ اپریشن خیبر فور اپریشن ردالفساد اور ضرب عضب کا تسلسل ہے جس کے بعد ظلم کے سائے چھٹ رہے ہیں‘ امن لوٹ رہا ہے۔ دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے فورسز اور حکومت کے عزم میں کمی نہیں آئی۔ دہشت گردوں نے شاید نیشنل ایکشن پلان کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھایا کہ وزیرستان‘ گلگت بلتستان اور بلوچستان میں منظم ہونے لگے ہیں۔ ان کو ابھرنے سے قبل سختی سے دبا دینا چاہیے۔
آج پاکستان کو بہت سے مصائب مشکلات اور چیلنجز کا سامنا ہے جن کے مقابلے کیلئے ہمارے سامنے امام عالی مقام کا عزم‘ ارادہ‘ حوصلہ اور عظیم ترین کردار مینارہ نور ہے۔ کرپشن نے ہماری معیشت تباہ کرکے رکھ دی‘ موجودہ حکومت کرپشن کے خاتمے اور کڑے احتساب کے ایجنڈے کو لے کر اقتدار میں آئی ہے۔ ہمارے معاشرے اور حکومتی و سیاسی نظام میں موجود مالی بے ضابطگی اور کرپشن موجود ہے اسکے خاتمے کی رہنمائی بھی حضرت امام حسین ؑ نے اپنے ایک خطبے میں ارشاد فرمائی ہے جو آپ نے مکہ سے عراق جاتے ہوئے منزل ِ بیضہ پر حکومتی لشکر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔ آپ فرماتے ہیں ’’ لوگو گواہ رہنا ان لوگوں (حکمرانوں) نے خدا کی اطاعت کو ترک کرکے شیطان کی پیروی اپنے لئے لازم قرار دے دی ہے۔ برائیوں کو رائج اور حدود ِ الہی کو معطل کردیا ہے۔ بیت المال(قومی خزانے) کو اپنے ساتھ مختص کرلیا ہے ۔ خدا کے حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دے دیا ہے۔ اسکے اوامر و نواہی کو بدل ڈالا ہے۔ میں مسلم امہ کی رہبری اور امامت کیلئے ان مفسدین سے کئی درجہ بہتر ہوں جنہوں نے میرے جد امجد رسول مکرم ؐ کے دین کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔‘‘ قومی خزانہ کرپشن کے ذریعے اپنے ذاتی امور پر خرچ کرنیوالے اور دوسروں کے مالی حق پر ڈال کر اپنی تجوریاں بھرنے والے حکمرانوں اور صاحبان ِ اقتدار کے لیے امام حسین ؑ کی وارننگ آج بھی ہماری رہنمائی کررہی ہے کہ ہم نے کس طرح کرپشن اور کرپٹ نظام کا راستہ روکناہے۔
ہمارے ازلی اور ابدی دشمن بھارت کا کردار یزید سے کم نہیں‘ وہ اسی طرح کشمیریوں پر ظلم ڈھا رہا ہے اور یزیدیوں کی طرح پاکستان کا پانی بند کررہا ہے۔ ان لوگوں کا کردار یزید کے کردار سے کم گھنائونا نہیں جو بھارت سے بھتہ لے کر پاکستان میں پانی کے ذخائر کی تعمیر کی مخالفت کررہے ہیں۔ بھاشا ڈیم کی تعمیر پر سپریم کورٹ‘ حکومت فوج سمیت ادارے اور قوم کمٹڈ ہے۔ اس ڈیم کی مخالفت ہورہی ہے۔ ادھر بھارت نے بھاشا ڈیم کی تعمیر کیخلاف اقوام متحدہ جانے کا فیصلہ کیا‘ وہ اقوام متحدہ میں پاکستانیوں کی طرف سے بھاشا ڈیم کی مخالفت کو اپنے حق میں ایک دلیل کے طور پر پیش کر سکتا ہے۔ بھاشاڈیم کی مخالفت کرنے والے دانستہ یا نادانستہ بھارتی ایجنڈے کا حصہ بن رہے ہیں۔
گزشتہ برسوں کی طرح آج یوم عاشور پر کئی شہروں میں موبائل فون سروس بند اور موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی ہو گی۔سکیورٹی کے دوسرے انتظامات بھی وقت کا تقاضا ہے۔ اس سے عام شہری کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا تاہم ایسے اقدامات شہریوں کی حفاظت کیلئے ہی کئے جاتے ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے ہر شہری اپنا کردار ادا کرے تو دہشتگرد جلد مکمل طور پر اپنے انجام کو پہنچ سکتے ہیں۔ واقعہ کربلا ہمیں برداشت کا بھی درس دیتا ہے۔ ہمیں اپنی روزمرہ زندگی میں بھی برداشت کو فروغ دینا ہے۔ خصوصی طور پر سیاسی ایلیٹ جس سے قوم رہنمائی لیتی ہے برداشت کو حرز جاں بنائے۔ عالمی سطح پر بااثر اور طاقتور اسلامی ممالک بھی اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کریں۔ مصلحتوں کا شکار مسلم امہ کو آج سیدالشہداء امام حسینؓ کی لازوال قربانیوں کو اپنے لئے مشعل راہ بنا کرتاریکی کے مقابلے میں روشنی کے مینار کی طرح ابھرنے کا عزم نو کرنا چاہیے ۔ آج یوم عاشور پر من حیث القوم ہمیں عہد کرنا ہو گا کہ ہم عظمت اسلام کیلئے سیدالشہداء حضرت امام حسین اور انکے جانثاروں کی قربانیوں کو دہشت گردوں کے عزائم کی بھینٹ نہیں چڑھنے دینگے اور اس ارضِ وطن کو امن وآشتی کا گہوارہ بنا کر رہیں گے۔

ای پیپر دی نیشن