تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو قربانی دینے والوں کی فہرست کم نہیں ملے گی ،مگر یہ سچ ہے تا ریخ میں ابراہیم ؑ اور حسینؓ جیسی مثالیں بھی نہیں ملیں گی۔ خدا نے جس طرح سے قربانی کے لحاظ سے اپنے برگزیدہ بندوں کو آزمایا ہے ویسے کسی کو نہیں آزمایا۔ اللہ پاک کی قدرت ہے کہ اسلام کا پہلا مہینہ بھی قربانی کا اور آخری بھی قربانی کا ہے ۔ آخری مہینے میں خدا نے اپنے خلیل سے قربانی لی جس کا مقصد خدا کی محبت کواپنی جان ، مال،اولاد تک سے بڑھ کر عزیز رکھنا تھا اور جب اُسکی محبت کی خاطر کچھ قربان کرنا پڑے تو اپنی اولاد تک کو بھی قربان کرنے سے گریز نہ کریں یعنی اولاد سے مراد قیمتی سے قیمتی چیز ہی کیوںنہ ہو۔ اور اولاد سے بڑھ کر کچھ بھی عزیز نہیں۔ اور دوسری عظیم قربانی جو اللہ پاک نے اپنے پیارے محمد ﷺ کے لاڈلے،لختِ جگر ،جگرِ گوشہ بتول ؓ حضرت سید نا حسین ؓسے لی ۔ ایک قربانی نفس کے خلاف جہاد کی تھی اور ایک قربانی ضمیر کے سودے کی تھی کہ جب بھی ضمیر کے سودے کی بات ہو تو ڈٹ جائو حسین کے ایمان کی طرح ،بھوک پیاس سے نڈھال ہوجائو مگر دشمن کے ناپاک ارادوں کے آگے کبھی سرخم تسلیم نہ کرو۔ خدا کی عزت اُسکی محبت کی خاطر اپنے صبرکی طاقت سے دشمن کو ایسی مات دو کہ وہ دوبارہ اسلام اور اسکے محاذ پر کھڑے جانباز مردِ مجاہدوں کے حوصلوں اور اُنکی طاقت کو للکارنے کی جرائت نہ کرے ۔ یزید بھلے ہی اپنی پوری طاقت میں تھا مگر حسین کے صبر کو مات نہ دے سکا، اُنکے بلند حوصلوں اور حق پہ جمے قدموں کو اُکھاڑنہ سکا۔ حضرت امام حسین ؓ کی قربانی ہمیں اس بات کا درس دیتی ہے کہ دشمن چاہے اپنے کتنے ہی جلال میں ہو،کتنی ہی طاقت میں ہوچاہے کتنے ہی ناپاک ارادوں کا حامل ہو اگر ہم حسین کی طرح بے یارو مدد گار بھی ہوں، بے ہتھیاڑ بھی ہوں، بے بس ہی کیوں نہ ہوں اگر ارادے نیک ہوں، اور بات حق پر ڈٹے رہنے کی ہو تو دشمن کو ہرانے اور خود کو ناقابلِ تسخیر کرنے کے لیے دو ہی ہتھیار کافی ہیں ایک انتہا کا صبر اور دوسرا خدا پر قوّی یقین ۔ جان تو آخر چلی ہی جانی ہے تو پھر ایسا جام ِ شہادت نوش کر کے جائیں کہ مرنے میں بھی مزہ آئے، خدا کا قرب بھی حاصل ہو اور حریف اپنے ظلم، جبر،تشدد سے زیادہ صابر کے صبر پر ورطہ حیرت میں مبتلا رہے۔
حضرت امام حسین ؓ نے نیزے پر قرآن پڑھا اور کچھ اسطرح سے اسلام کا چراغ روشن کیا جسے کوئی طوفان نہ بجھا سکا نہ بجھا سکے گا ،تا قیامت اسلام زندہ باد حسین زندہ باد کی آواز پوری دنیا میں گونجتی رہے گی ۔ نواسہ رسول ﷺ نے میدانِ کربلا میں شجاعت و بہادری اورتسلیم و رضا کی تاریخ رقم کی ہے جسکی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔آپ ؓ نے اپنے خون ِ جگر سے شجرِاسلام کی ایسی آبیاری فرمائی اور ابدی چراغ روشن کیے جو قیامت تک اپنی روشنیاں بکھیرتے رہیں گے ۔ لیکن یہاں ایک بات قابلِ غور بھی ہے کہ ہم حسین ؓ کی قربانی کو یاد رکھتے ہیں کہ اُنہوں نے اسلام زندہ رکھنے کی خاطر یا اپنے خاندان کو اللہ کی عزت ، محبت کی خاطرخودکو اُسکی راہ میں کو قربان کیا ۔لیکن ہم یہ غور نہیں کرتے کہ اس قربانی کا مقصد کیا تھا ؟ جنہوں نے اسطرح اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ مقصدرہتی دنیا تک مسلمانوں کو اس بات کا احساس دلانا کہ کبھی بھی کسی معاملے میں اپنے ایمان،ضمیر کا سودا نہ کریں۔ اور جب جب خدا کی عزت اور اُسکی راہ میں لڑنے اور حق پر ڈٹے رہنے کا سوال ہو تو ایمان کے سوداگر نہ بنیںبلکہ خودداری اور غیرت سے اپنے سامنے باطل کو سر نگوں کریں تاکہ وہ کبھی بھی آپکی ہمت ، صبر اور ایمان کی طاقت کو آزمانے کی جرائت نہ کرے۔ اگر ہم اسلامی تاریخ کی عظیم ہستیوں کی قربانیوں سے فیض نہیں پاسکتے ،اگر ہم اُنکی قربانیوں کی اصل روح کو نہیں سمجھ سکتے تو ہمیں اُنکی یاد میںرونے کا کوئی فائدہ نہیں اور نہ ہی ریاضتوں کا، جب ہم وہ درس اور سبق ہی حاصل نہیں کرسکتے جو خدا نے اپنے بندوںکی قربانیوں کے ذریعے ہم تک منتقل کیا۔ کیونکہ ہر کام میں اللہ کی حکمت اور مصلحت شامل ہے اور یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر کام میں علم کے ذریعے اُسکی مصلحت کو سمجھیں اور سبق آموز باتوں سے وہ درس حاصل کریں جس سے ہم اپنی زندگی بہتر سے بہترین بنا سکیں ۔ خودی کو ناقابلِ تسخیر بنا سکیں ، جو نہ کبھی فتح ہو سکے اور نہ ہی کبھی خریدی جا سکے ۔ حسین ؓ کی قربانی صرف قربانی نہیں بلکہ اُنکے صبر و ایمان کی عظیم مثال ہے جسے اُنہوں نے یزید جیسے سفاک، جابر، ظالم شدت پسند کافر کے سامنے کمزور پڑنے نہیں دیا۔کسی بڑے محاذ پر اپنے ایمان کی طاقت کا ثبوت دینے سے بہتر ہے کہ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں وہ معاملات جو ہمیں اپنے ضمیر اور ایمان کا سودا کرنے پر مجبور کرتے ہیں اُن سے ممانعت کریں تاکہ حضرت امام حسین ؓ کی قربانی کا مقصد پورا ہو سکے اور وہ پیغام جس کی خاطر اُنہوں نے اپنی جان کا نظرانہ پیش کیا اُسے پورا کرنے کا حق ادا کر سکیں: ؎
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد