ہمارے ہاں جمہوریت کامیاب کیوں نہیں

کہا جاتا ہے (اور یہ غلط بھی نہیں ہے) کہ ستر سال سے ہمارا یہ عظیم ملک لولی لنگڑی جمہوریت کے سہارے چل رہا ہے، اس جمہوریت کے پاسبان ہمارے سیاسی لیڈر باہم دست و گریباں ہیں اور ہم دن رات پریشانیوں میں کراہ رہے ہیں، یہ کیفیت اور یہ مناظر کسی زندہ قوم کے شایانِ شان نہیں ہو سکتے ، اس لیے ہم سب کے سوچنے، جاننے اور ماننے کی بات یہ ہے کہ ایسے کیوں ہے اور کیا ہم اس کیفیت سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں اور کیا ان دل سوز مناظر کو ہم خوشگوار مناظر میں بدل نہیں سکتے؟
ان سوالوں کے اگر درست جواب سوچ اور سمجھ لیے جائیں تو ہم زندہ و پائندہ قوم بننے کی صلاحیت کے مالک ہیں، یہ لولی لنگڑی جمہوریت ایک ایسے درخت کی مانند ہے جس کی جڑیں ہیں نہ پیندا ہے، ایسے درخت کا پھل دینا تو محالات میں سے ہے، یہ تو پتوں کو بھی ترستا رہتا ہے ہم تو عجیب قوم ہیں جو اس درخت سے امید لگائے پھرتے لیکن ہمارے یہ سیاسی لیڈر تو ہم سے بھی عجیب تر ہیں جو ہمیں اسی درخت سے پھل کھلانے کی امیدیں دلا کر بے وقوف بناتے ہیں اور بے وقوف بنانے میں پوری طرح کامیاب بھی ہیں، ہمارے اس پیارے وطن کی سرزمین مہربان اور انسان پرور ہی نہیں حیوانات اور جمادات کی بھی تسلی بخش پرورش کرتی ہے، یقین کیجئے کہ ہماری یہ پاک سرزمین ، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ، د نیا کی سب سے زیادہ مہربان اور زرخیز زمین ہے جس میں دنیا بھر کی ہر نعمت وافر مقدار میں موجود ہیں اور اس میں آپ دنیا کا ہر پودا اور ہر غلہ اُگا سکتے ہیں، اس لحاظ سے ہمارا یہ وطن عزیز سب سے زیادہ امیر اور دولت مند ملک ہے مگر ہم عوام دنیا کے غریب ترین اور محتاج ترین لوگ ہیں، اس لیے کہ یہاں لولی لنگڑی جمہوریت کا راگ الاپنے والے سب کچھ سمیٹ لیتے ہیں اور باہر کی دنیا میں اپنی دولت کے خفیہ انبار لگاتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جمہوریت کے درخت کی جڑیں ہوں، پیندا ہو اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہماری سیاسی جماعتوں کے اندر آزادانہ جمہوری الیکشن ہو، یہ جماعتیں غریب عوام کی جمہوریت والی جماعتیں ہوں الیکشن کمشن ان کے آزادانہ و منصفانہ الیکشن کرانے کی نگرانی اور ذمہ داری قبول کرے، جو جماعت ایک مقرر مقدار کی عوامی تائید نہ حاصل کر سکے اسے ختم سمجھا جائے، اسی طرح الیکشن میں امیدوار کو ا پنا سرمایہ بہا کر ووٹ لوٹنے کی بھی اجازت نہ ہو، مقررہ مقدار کی عوامی تائید حاصل کر لنیے والی سیاسی جماعت کے امیدواروں سمیت تمام امیدواروں کو سرمایہ سے ووٹ خریدنے پر کمشن کڑی نظر رکھے!
کہنے کی بات یہ ہے کہ الیکشن میں صرف اس جماعت کو شرکت کی اجازت ہو جو کسی وڈیرے یا سرمایہ دار کی جیب میں ہونے کے بجائے عوامی جمہوری بنیادوں پر قائم اور منظم ہو اور عوامی ووٹ لینے کی اجازت صرف ایسی جماعت کے میرٹ پر نامزد کئے گئے امیدوار کو ہو، اس طرح جمہوریت کے پودے کو جڑیں میسر آ جائیں گی اور یہ لولی لنگڑی نہیں رہے گی اور اس کا پھل بھی سب کو نصیب ہو گا لیکن جب ہماری سیاسی جماعتیں جمہوری طور پر منظم نہیں ہوتیں اس وقت تک ہمارے وطن عزیز میں بھی جمہوریت نہیں پنپ سکتی، جماعتوں میں چونکہ سلیکشن اور نامزدگیوں سے کام چلتا ہے اس لیے ملک میں بھی سلیکشن اور نام مزدگیوں سے کام چلے گا اور چل رہا ہے، میں تو گزشتہ ستر سال سے یہی کچھ دیکھ رہا ہوں، مجھے تو یوں لگتا ہے کہ ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں انیس سو سینتالیس (1947 ئ) میں تھے بس ایک تبدیلی واضح ہے کہ مسلم لیگ جسے بابائے قوم بھی عوامی اور جمہوری جماعت بنانے سے پہلے ہی ہم سے جدا ہو گئے تھے اور یہ وڈیروں اور نواب زادوں کی جماعت چلی آتی ہے۔ البتہ شخصیات کے ناموں سے اس جماعت کے بھی ٹکڑے ہوتے رہے ہیں میں نے تو سنا ہے کہ اب مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ ن کی طرح ایک مسلم لیگ میم (م) بھی سامنے آئی ہے، ایک بھائی جو مولوی کہلاتا ہے وہ اب مسلم لیگ میم یعنی مسلم لیگ مولوی سامنے لے آیا ہے!

ای پیپر دی نیشن