اسلام آباد/ سٹاف رپورٹر/ ماہرین نے کہا کہ سی پیک کے بارے میں پاکستان کے پاس واضح حکمت عملی کا فقدان ہے جس کے نتیجے میں منصوبوں کی مجموعی پیشرفت میں سست روی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کنفلکٹ اینڈ سیکورٹی سٹڈیز کے زیر اہتمام اس موضوع پر منعقدہ گول میز کانفرنس میں ان خیالات کا اظہار کیا گیا۔ راجہ عامر اقبال ، سابق صدر راولپنڈی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اس گول میز مرکزی اسپیکر تھے جبکہ اقتصادی اور اسٹریٹجک ماہرین ، تاجروں ، اکیڈمیہ ، صحافیوں ، بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین ، محققین بھی شریک تھے۔ ادارے کے چیئرمین میجر جنرل (ر) سعد خٹک ، ڈاکٹر اظہر احمد ہیڈ ڈپارٹمنٹ انٹرنیشنل ریلیشنز بحریہ یونیورسٹی ، بریگیڈ۔ (ر) سیف ملک ، ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ انٹرنیشنل ریلیشنز مسلم یونیورسٹی ، ڈاکٹر طلعت شبیر ڈائریکٹر چائنا پاکستان اسٹڈی سنٹر (سی پی ایس سی) آئی ایس ایس آئی ، بریگیڈ (ر) سعد محمد اسٹریٹجک تجزیہ کار ، بریگیڈ۔ (ر) احتشام دفاعی تجزیہ کار ، عبداللہ خان منیجنگ ڈائریکٹر پی آئی سی ایس ایس ، وجیہہ بٹ ، سیاسی تجزیہ کار اور دیگر نے اس بحث میں حصہ لیا۔شرکا نے سی پیک کے منصوبوں پر عدم پیشرفت پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ راجہ عامر اقبال نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کو سی پی ای سی کے حوالے سے میں واضح حکمت عملی کا فقدان ہے۔ شرکائ میں سے بیشتر نے اس خیال سے اتفاق کیا۔ ایک سوال یہ اٹھایا گیا کہ کیا واضح حکمت عملی میں کوتاہی ہے یا جان بوجھ کر یہ سب کیا جا رہا ہے۔راجہ عامر اقبال نے کہا کہ معاملات 2018 تک صحیح سمت میں گامزن تھے لیکن پھر معاملات بدل گئے اور صورتحال تعطل کا شکا ر ہے۔انہوں نے کہا کہ سی پیک ہماری ضرورت ہے اور ہمیں ٹرانزٹ ٹریڈ کے بارے میں سوچنے اور محض ٹول ٹیکس جمع کرنے کے بجائے صنعت کاری پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔بریگیڈ (ر) سعد محمد نے کہا کہ چینی چاہتے ہیں کہ ہم تنازعات سے گریز اور ترقی کریں لیکن بدقسمتی سے ہم پاکستان کی تشکیل کے بعد سے تنازعات کا شکار ہیں۔راجہ عامر اقبال نے پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال اور معیشت کے فروغ کے لیے پاکستان کے مختلف حلقوں میں ترقی پسندانہ اقدامات اور واضح حکمت عملی کو اپنانے پر زور دیا۔ سی پیک کے حوالے سے سب سے اہم رکاوٹ چینیوں اور پاکستانی ہم منصبوں کے مابین کاروباری اخلاقیات کا فرق ہے۔ تاہم ، ہم پاکستان میں چینی کاروباری اخلاقیات کو نافذ نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ ہمیں پا کستان کے حا لا ت کے مطا بق د یکھ کے چلنا ہے۔گول میز کانفرنس شرا کین نے سی پیک کا فائدہ حاصل کرنے کے لئے پاکستان کے سیاسی اور معاشی میدان میں ساختی اصلاحات لانے کی ضرورت پر زور دیا۔ماہرین نے یہ بھی کہا کہ آئی ایم ایف سے صرف 6 بلین امریکی ڈالر کے لئے پاکستان عملا. 23 ارب ڈالر ضائع کر چکا ہے۔ انہوں نے کہا کے کہ آئی ایم ایف کے وجہ سے سی پیک سست روی کا شکا ر ہے، عابد امام نے کہا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف پیکیج کی ضرورت نہیں تھی اورپا کستان کو جلد سے جلد اس سے چھٹکا ر ہ حا صل کرنا چا ہیے تاہم راجہ عامر نے اس کی تردید کی اور کہا کہ ان کے مطا بق پاکستان کو ستمبر 2018 میں آئی ایم ایف کے پاس جانا چاہئے تھا۔شرکاء نے اس بیلٹ روڈ انیشی ایٹو کے نتیجے میں مقامی صنتکاروں کی پریشانیوں اور ان کی صلاحیتوں پر بھی سوال اٹھایا ہے۔ میجر جنرل (ر) سعد خٹک نے اختتامی کلمات دیتے ہوئے کہا کہ پاور کوریڈورز میں ایسے افراد موجود ہیں جن کے اپنے ذاتی مفادات ہیں جو پاک چین تعلقات کوا چھی نظر سے نہیں دیکھتے اورایسے لوگوں کی موجودگی میں سی پیک سے فائدہ حا صل کر نا بہت مشکل ہو سکتا ہے۔