درہ خنجراب سے واپسی

درہ خنجراب سے واپسی پر اترائی والے موڑ جہاں جاتے ہوئے 16مارخور دیکھے تھے اس جگہ کے گردونواح میں پھر دیکھنے لگے کہیں مارخور واپس نہ آگئے ہوں۔ مگر وہ تو مارخور ہیں۔ جنگل کے آزاد جانور نہ جانے کس درے اور سنگلاخ پہاڑ میں ہوں گے۔ ھلکی بارش تھی۔ روڈ پر سلپ ہونے کا خطرہ ہو چکا تھا۔ منی سوئیزر لینڈکی خوبصورتی اپنی طرف کھینچتی ہے۔ غلپن سے آگے بالائی وادیِٔ ھنزہ میں شاھی خیبر کے مقام پر رکے جہاں کچھ سیاح گھوم رہے تھے۔ یہاں ہوٹل وغیرہ بہت ہیں مگر ہم یہ ساتھ والے گھر ٹھہرے ہیں۔ یہ لوگ بہت اچھے ہیں۔ کھانا بھی یہی لوگ دیتے ہیں۔۔خنجراب کی جانب سے آنے والا خنجراب نالہ اترائی میں بہتے ہوئے زیادہ شور مچاتا ہے۔ ضلع ھنزہ کے دو حصے ہیں۔ ایک اپر ھنزہ جو عطاء آباد جھیل سے آگے اوپر کی جانب ہے جبکہ لوئر وادی ھنزہ میں نچلے علاقے کریم آباد، علی آباد، نصیر آباد، جمال آباد، ناظم آباد، مرتضیٰ آباد اور حسن آباد وغیرہ آتے ہیں۔ہم مغرب کے بعد علی آباد اور کریم آباد کے چوک میں پہنچے۔ یہاں سے ایک سڑک اوپر کی طرف کریم آباد جبکہ دوسری علی آباد گلگت کی جانب شاھراہ قراقرم واقع ہے۔ ہم نے آج رات کریم آباد ٹھہرنا تھا لہذا چوک سے واپس ہوئے اور کریم آباد شہر پہنچ گئے۔ رات کی روشنیوں میں کریم آباد شہر جگمگا رہا تھا۔ پختہ گلیاں صاف ستھرا شہر لوگ بہت ہی خوبصورت اور با اخلاق ہیں۔ تھوڑی دیر کی کوشش کے بعد ہمیں ایک اچھے اور معیاری اور مناسب ریٹس پر کمرے مل گئے۔ ہوتل کا مالک تعلیمیافتہ نوجوان تھا جس نے ہوٹل کی ریسیپشن میں چھوٹی سی لائبریری قائم کر رکھی ہے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ کتب سیاحوں کو مطالعے کے لئے مخصوص وقت کے لئے دی جاتی ہیں۔ کتب کے ذخیرے میں زیادہ تر سفر نامے اور گلگت بلتستان کے حوالے سے تاریخی کتب تھیں۔ میں نے اپنی کتاب سفر نامہ ’’کشمیر سے کیلاش تک‘‘ ہوٹل کو پیش کی تاکہ ہماری نشانی بھی ادھر موجود ہے اور کوئی سیاح اسے پڑھ سکے۔ نوجوان نے میرا شکریہ ادا کیا۔کمرے میں سامان رکھنے کے بعد ہاتھ منہ دھو کر کھانے کے لئے شہر میں نکلے۔ ہر ہوٹل میں بہت رش تھی۔ اب تک جدھر بھی ہم گئے سب سے زیادہ رش اسی شہر میں پائی۔ یہاں بڑی تعداد سیاح موجود تھے۔ یہ ایک تاریخی شہر ہے۔ اچھا بڑا شہر ہے۔ بلند پہاڑی پر واقع ہے۔ شہر کی سب سے اہم خصوصیت پورے گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ صاف ستھرا ہے۔ پرنس کریم آغا خان کے نام سے منسوب یہ شہر کریم آباد سیاحوں کی جنت ہے۔ میں یہاں کے لوگوں کو بہت ہی خوبصورت اور با اخلاق پایا۔ ایک ہوٹل پر ہم نے کھانا کھایا۔ بازار میں چہل قدمی کی۔ دیکھا ہر طرف ڈرائی فروٹس کی بڑی بڑی دوکانیں ہیں۔ گرم پٹی، ٹوپیاں وغیرہ بھی یہاں کی خاص آئیٹم ہے۔ رات گئے ہم نے ڈرائی فروٹس کی دوکانوں پر بڑی تعداد سیاحوں کو خریداری کرتے دیکھا۔ معلوم ہوا پورے گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ سستا ڈرائی فروٹ یہاں ہی ملتا ہے۔ ایک آدمی سے بلتت اور ایلتت قلعے کا راستہ معلوم کیا تاکہ صبح سویرے قلعے دیکھنے چلیں۔ معلوم ہوا کہ بلتت قلعہ بڑا ہے اور ہمارے ہوٹل سے بلندی کی طرف 5منٹ کی پیدل مسافت پر ہے۔ تھکاوٹ بھی تھی اس لئے واپس ہوٹل آئے۔ نماز اادا کی اورآرام دہ کمروں میں سو گئے۔
22جولائی 2020ء کی رات ہم نے کریم آباد کے بلیو فون ہوٹل میں گزاری۔ کریم آباد میں کمروں کی تعداد کے حوالے سے سب سے بڑا ہوٹل ہے۔ چار منزلہ ہے۔ہم اس ہوٹل پر کافی دیر بیٹھے رہے۔ ہوٹل کا نام ہوٹل فوڈ پیولین ہے۔ میں نے مشاھدہ کیا کہ خاتون بہت ہی سوشل، سنجیدہ اور تعلیمیافتہ ہے۔ اس سے اجازت لے کر ہم اس علاقے کی تاریخ و ثقافت سے متعلق معلومات حاصل کرتے ہیں لہذا میں نے خاتون سے کہا اگر اجازت ہو تو میں آپ سے معلومات لینا چاہتا ہوں۔ میں نے اپنا تعارف کرایا کہ پروفیسر ریٹائرڈ ہوں۔ لکھتا بھی ہوں۔ کالم لکھتا ہوں۔ کچھ کتابوں کا مصنف بھی ہوں۔ اس سفر نامے کو بھی مرتب کرکے کتابی شکل دوں گا۔ آپ سے معلومات کے حوالے سے تعاون درکار ہے۔ خاتون نے بڑی خوشی کے ساتھ کہا کیوں نہیں۔ جو مجھے معلوم ہے حاضر ہوں۔ نام پوچھا تو اس نے بتایا میرا نام لال شہزادی ہے۔ رنگ روپ و چال ڈھال میں بھی لال شہزادی ہی لگتی تھی۔ کہنے لگی میں مقامی ہوں۔یہ ہوٹل کرائے پر لیا ہے۔ گزشتہ 5سال سے یہ کاروبار کر رہی ہوںھنزہ فوڈ پیویلین۔ لال شہزادی ایگریکلچر ماسٹر ٹرینر۔ انگریزی حروف کا بورڈ بڑے سائز کا ہے۔ تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خاتون تعلیمیافتہ ہے۔ یہ ہوٹل بلتت قلعہ روڈ نزد پولو گراؤنڈ کریم آباد میںہے۔میرے سوالات کے جوابات میں لال شہزادی نے بتایا کہ میرے میاں ریٹائرڈ صوبیدار میجر پاک آرمی سے ہیں۔ 2بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ بیٹی بڑی ہے۔ اس وقت بیکن ہاؤس لاہور میں زیرِ تعلیم ہے۔ ایک بیٹا 9thجبکہ دوسرا 10thمیں کریم آباد میں ہی پڑھتے ہیں۔ یہاں کی ثقافت ہے کہ گھر کے چھوٹے بڑے سب کام کرتے ہیں ۔ صبح اٹھ کر ہم سب سے پہلے خود گھر، چار دیواری، صحن کے ساتھ گلی اور سڑک کی صفائی کرتے ہیں۔ لوگ زمینداری کام میں دلچسپی لیتے ہیں۔ عورتیں، مرد سب برابر زمینداری کام کرتے ہیں۔ آلو مٹر وافر ہوتے ہیں۔ فروخت کرتے ہیں۔ ہر قسم کا بہت فروٹ ہے۔ ڈرائی فروٹ بڑا ذریعہ آمدنی ہے۔ اخروٹ اعلیٰ قسم کا ہے۔ہر شخص اپنی سبزیاں اگاتا ہے۔ صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہر محلے گلیاں صاف ستھرے ہیں۔ کوئی جھگڑا فسادفتنہ منافقت نہیں۔ ہر کوئی پرسکون زندگی گزارتا ہے۔ محنت سے کام کرنے میں شرماتا نہیں بلکہ فخر محسوس کرتے ہیںتعمیر وترقی کے ضمن میں حکومت کی کارگزاری کے میرے سوال کے جواب میں لال شہزادی نے بتایا حکومت نے کوئی خاص کام نہیں کئے۔ یہاں تمام تعمیر و ترقی کے کام اور سماجی بہبود کے کام پرنس کریم آغا خان فاؤنڈیشن اور ان سے وابستہ دیگر تنظیموں نے کئے ہیں۔ یہ فلاحی تنظیمیں تعلیم، صحت، پانی، صفائی ستھرائی، ایگریکلچر اور دیگر بہت سے شعبوں میں کام کر رہی ہیں۔ تاریخی قلعوں کی مرمت حفاظت اور دیکھ بھال بھی یہی تنظیمیں کر رہی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن