اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) کل جماعتی کانفرنس نے بالآخر وزیراعظم عمران خان سے مستعفی ہونے اور حکومت کے خلاف ملک گیر تحریک چلانے اور اس مقصد کے حصول کیلئے سیاسی اتحاد کی تشکیل کا اعلان کر دیا ہے۔ مختلف مراحل پر مشتمل احتجاجی تحریک اگلے برس سینٹ کے الیکشن سے لگ بھگ دو ماہ پہلے ماہ جنوری میں نکتہ پر پہنچے گی۔ چند ماہ پہلے وزیراعظم عمران خان، وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کہہ چکے ہیں رواں سال ماہ نومبر تک ان کی حکومت کیلئے فیصلہ کن وقت ہے۔ اپوزیشن بھی یہی سمجھتی ہے کہ اس وقت لوہا گرم ہے۔ ضرب لگا دینی چاہئے۔ وفاقی دارالحکومت کے سفارتی حلقوں نے پیپلز پارٹی کے زیراہتمام مقامی ہوٹل کے خنک ماحول میں کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد کو دلچسپی سے ملاحظہ کیا لیکن مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف کی تقریر سب ہی کو حیران کر گئی جس کا تجزیہ یہ کیا جا رہا ہے کہ نواز شریف نے اپنے پرانے بیانیہ سے رجوع کر لیا ہے۔ تاہم مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی صرف نواز شریف کے لب و لہجہ کی تائید کی بلکہ اپنے والے والد آصف علی زرداری کے نپے تلے سیاسی رویہ سے قدرے انحراف کے مرتکب بھی ہوئے۔ حکومت کے خلاف تحریک بجا سہی لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نواز شریف کی پارٹی بطور خاص، اور اپوزیشن بالعموم، اس خستگی اور شکستگی کے باوجود تاریخ رقم کر سکتی ہے؟ سابق وزیراعظم ایک شاطر سیاسی کھلاڑی ہیں اور کچھ ہو نہ ہو، اس تقریر نے ان کے کارکنوں میں نیا حوصلہ پیدا کر دیا ہے۔ سابقہ بیانیہ سے رجوع کر کے انہوں نے عارضی طور پر سہی، پارٹی کو شکست و ریخت سے بچا لیا ہے۔ کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد سے پہلے عمومی تاثر یہ تھا کہ یہ بھی پہلی کانفرنسوں جیسا ایک اجتماع ہو گا لیکن حکومت کے خلاف ملک گیر تحریک چلانے، نئے سیاسی اتحاد کی تشکیل، نواز شریف اور بلاول بھٹو کی تقاریر، شریک جماعتوں کی نظریاتی ساخت اور حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی اطلاعات نے بہرحال تحریک کا عنصر پیدا کیا ہے۔ اس اے پی سی کے بعد ایک واضح امکان تو یہ نظر آیا ہے کہ اب ایک نیا سیاسی اتحاد وجود میں آ گیا ہے جو اے پی سی میں شریک جماعتوں بالخصوص پاکستان مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، قومی وطن پارٹی (کیو ڈبلیو پی)، پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ)، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی-ایم)، جمعیت اہلحدیث اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) پر مشتمل ہو گا۔ مجوزہ اتحاد کی تمام سرگرمیاں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے گرد ہی گھومیں گی البتہ مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت علماء اسلام، نہ صرف دونوں جماعتوں کی محتاج نہیں بلکہ سڑکوں اور دھرنوں میں آنے والے کارکنوں کی طاقت کے بل پر ان جماعتوں کو تقلید پر بھی مجبور کر سکتی ہے۔ اتحاد کا سربراہ بننے کے تنازعات ماضی میں اپوزیشن کا شیرازہ بکھیرتے رہے ہیں۔ اس بار یہ مسلہ کس طرح حل کیا جائے کیونکہ آصف علی زرداری خرابی صحت، نواز شریف بیرون ملک قیام کے باعث یقیناً اس منصب کے امیدوار ہی نہیں ہوں گے۔ شہباز شریف خود کو اس آزمائش میں ڈالنا ہی پسند نہیں کریں گے کیونکہ ان کے ذہن میں مفاہمت کی امید ہمیشہ قائم رہتی ہے۔ اگر بلاول یا مریم جیسے نوجوان قیادت سامنے آئی تو مولانا فضل الرحمٰن یقیناً، ان کے مقلد نہیں بنیں گے۔ اس صورتحال میں ایک ہی حقیقی امیدوار مولانا فضل الرحمٰن باقی رہ جاتے ہیں۔ وہ سیاسی بھی ہیں۔ جمہوری بھی، دیندار بھی ہیں اور دعویٰ کئے بغیر سیکولر ازم کے وارث بھی۔ دیکھئے، وفاق پرست اور قوم پرست جماعتوں کا یہ اکٹھ مولانا کو بطور قائد قبول کرتا ہے یا نہیں؟ اپوزیشن کا نیا اتحاد کتنا دیرپا ہو گا؟ یہ بھی اہم سوال ہے۔ اتحاد چلنے کے امکانات موجود ہیں کیونکہ، اس میں صرف پیپلز پارٹی ہی ایسی جماعت ہے جو حکومت سندھ کی صورت میں اقتدار کے ثمرات سے مستفید ہو رہی ہے۔ اے پی سی اور مجوزہ اتحاد میں پی ٹی ایم کی شمولیت ایک دلچسپ سیاسی پیشرفت ہے۔ دیکھئے اس اتحاد میں ان قوم پرست جماعتوں کی کس طرح نبھتی ہے۔ اے پی سی میں تقاریر کے آیئنہ میں، نواز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کے الگ الگ مقاصد نطر آتے ہیں۔ آصف علی زرداری نے حکومت ہٹانے اور جمہوریت کے بحالی کے دو مقاصد کا اعلان کیا ہے جب مولانا نے حسب توقع، اسمبلیوں سے استعفوں کے دیرینہ مطالبہ کا اعادہ کیا ہے۔ تاہم اس اے پی سی نے بھٹو اور شریف خاندان میں فاصلے ضرور کم کئے ہیں۔ دو قابل ذکر، قوم پرست راہنماء شریک نہیں تھے۔ اختر مینگل تو موجودگی اور عدم موجودگی سے بھی اپنا مافی الضمیر باور کرانے کی مہارت رکھتے ہیں لیکن اسفند یار ولی شدید بیمار ہیں اور عملی سیاست سے دور ہو چکے ہیں۔ ان کے صاحبزادے، ایمل ولی خان کو پارٹی کا صوبائی صدر بنا کر میدان سیاست میں اتار دیا گیا ہے لیکن سیاسی پختگی میں انہیں وقت لگے گا۔
نواز شریف کا پرانے بیانیہ سے رجوع‘ بلاول کی تائید حیران کن
Sep 21, 2020