لوگ ہجرت کرنا اس وقت چھوڑیں گے جب ان کو اپنے علاقے میں روزگار کے مواقع نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ روزگار کیلئے ٹیکنالوجی کو فروغ دینا ہوگا۔ انڈسٹری لگانا ہوگی۔ زراعت میں امکان کو دیکھنا ہوگا۔ جب کوئی زبان معدوم ہوتی ہے تو محض زبان نہیں ہوتی اس کے پیچھے پورا اثاثہ مر جاتا ہے۔ اثاثہ میں آپ کا علم طب مر جاتا ہے۔ علم طب سے جڑی بوٹیوں کے نام مٹ جاتے ہیں۔(پورا دیسی ہسپتال) اس زبان سے جڑے تمام علوم و فنون مٹ جاتے ہیں۔ اس سے جڑی پوری ثقافت مٹ جاتی ہے۔علامہ اقبال نے اپنے دور کے استحصالی یورپ کیColonyismیافتہ ملکوں کی مسولینی کے ہاتھوں درگت بنی دیکھ کر اس کو فاشزم کو نظرانداز کرتے ہوئے اس کے عمل کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے سات اشعار پر مشتمل ایک زبردست نظم لکھی۔ ان پر فاشزم کے حوالے سے اس زمانے پر تنقید بھی ہو گئی ہے۔ انہوں نے نظرانداز کرتے ہوئے ایسے اشعار لکھے
ندرت فکر و عمل کیا شے ہے؟ ذوق انقلاب
ندرت فکر و عمل کیا شے ہے؟ ملت کا شباب
رومتہ الکبریٰ ! دگرگوں ہو گیا تیرا ضمیر
اینکہ فی بینم بہ بیداریست یا رب یا بہ خواب
نغمہ ہائے شوق سے تیری فضا معمور ہے
زخمہو کا منتظر تھا تیری فطرت کا رباب
علامہ اقبال یورپ کے دورے پر گئے۔ مسولینی سے ملاقات کا اہتمام ہوا۔ ملاقات بہت دلچسپ ہوئی۔ رخصت کے وقت مسولینی نے کہا آپ کو دانائے مشرق کہا جاتا ہے۔ مجھے کوئی نصیحت فرمائیں۔ علامہ نے برجستہ کہا:’’ایک شہر کی شہریوں کیلئے کفالتی قوت تجاوز کرنے لگے تو اس کی مزید وسعت روک دی جائے اور کوئی نیا شہر بسایا جائے۔مسولینی پھڑک اٹھا۔ کیا دانش مندانہ نسخہ تجویز کیا ہے، علامہ نے فی الفور جواب دیا۔ ’’یہ میرا دانش مندانہ نسخہ نہیں۔ میرے پیغمبر صلعم کا ہے‘‘۔ پاکستان بننے کے بعد ہم دنیاوی بھاگ دوڑ میں جہاں قرآن سے دور ہٹتے گئے، وہاں عشق رسولؐ کے کھوکھلے نعرہ بازی میں حدیث رسولؐ کے دانشمندانہ فیض سے محروم ہوتے چلے گئے۔ پاکستان کی ساری دولت کوئی آدھ درجن شہروں کی توسیع و افزائش پر74 سال سے غرق کرتے چلے جا رہے ہیں جبکہ مذکورہ بالا فرمان شدہ پیمانے پر عمل کرتے تو اسلام آباد کی طرح کوئی ڈیڑھ درجن نئے اسلام آباد وجود میں آچکے ہوتے اور کراچی، لاہور وغیرہ لاینحل مسائل کے عذاب سے پاک ہوئے۔مدت ہوئی میں نے کہیں پڑھا تھا کہ چین نے فلاح فلاںفلاں مسئلہ میں اسلام سے رہنمائی حاصل کی تھی۔ مدد لی ہو یا نہ لی ہو، لیکن چین کے کمیون سسٹم میں پیغمبر اسلام صلعم اس کا عکس ضرور محسوس ہوتا ہے۔چین نے سارے چین میں پورے علاقے کو ہزارہا کمیون میں تقسیم کرکے (اب ڈاکٹر خٹک کے پیرے کو یہاں لایئے) اور ہر کمیون کو اس کی تمام تر ضرورتوں کو چھوٹے پیمانوں میں خودکفیل بنا دیا اور ٹیکنالوجی کے ذریعے کمیون میں روزگارکے ذرائع پیدا کر دیئے۔ چنانچہ آبادیوں کی شہروں پر یلغار کی بجائے ہجرت ناپید ہے اور ہر کمیون اپنی پوری پوری ضرورتوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے خودکفیل قصبوں کی شکل میں یکساں ترقی سے فیض یاب ہو۔ یوں پورے میں یکساں ترقی ہوئی۔ چین نے غربت پر اس نظام سے قابو پایا ہے۔ مزید تفصیل میں جانے کی یہاں گنجائش نہیں۔ صاحب عقل کیلئے اشارہ ہی کافی ہے۔ اب بھی موقع ہے حکومت بڑے بڑے شہروں کی کارپوریشنز ختم کرکے ہر بڑے شہر (کراچی، لاہور وغیرہ) کو آٹھ دس خودکفیل آزاد میونسپل کمیٹیوں میں تقسیم کر دے اور دیہات میں چین کے کمیون ماڈل کی روشنی ویسے ہی خودکفیل زون بنا کر موزوں قیادت کی تحویل میں دے دے اور نگرانی کا زبردست نظام قائم کر دے۔ عمران خان سن لیں یا کوئی وزیر بہ دانش ان کے کان میں ڈال دے۔ موجودہ تمام قسم کے مافیا اس نظام میں تحلیل ہو جائیں گے۔آخر میں ڈاکٹر خٹک سے رجوع کرتے ہوئے میں پورے وثوق سے یہ کہوں گا کہ اس وقت پاکستان میں جو تہذیبی/ ثقافتی توڑ پھوڑ تیزی سے جاری ہے، وہ فی الفور رک کی جائے گی اور عمران خان اگر مدینہ ریاست بنانے میں مخلص ہے تو یہ مدینہ ریاست خودبخود قائم ہونا شروع ہو جائے گی۔ اس حدیث مقدس پر عمل کرکے دیکھیں کیا کیا معجزے رونما ہوتے ہیں۔(ختم شد)