کرکٹ ڈپلومیسی اور عالمی بساط

یہ امریکی جریدے لاس انیجلس ٹائمز کی ویب سائٹ ہے جس پر ضیاء دور کی خبر موجود ہے۔ لکھا ہے ’’ضیا ء کی کرکٹ ڈپلومیسی نے بھارت میں سب سے زیادہ سکو ر کر لیا، پہلی پچ پر جنگ کی باتیں بخارات بن کر اڑ گئیں ‘‘۔ یہ فروری 1987کا تذکرہ ہے جب پاک بھارت جنگ کے خطرات عروج پر تھے ۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی فضا اس حد تک تھی کہ سرحدوں پر دونوں ممالک کی فوج آمنے سامنے آ چکی تھی۔ اس وقت صدر ضیاء الحق نے پاکستان کرکٹ ٹیم کو بھارت کا طے شدہ دورہ جاری رکھنے کا کہا ۔ دلچسپ چیز یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان عمران خان ہی تھے ۔ بھارت کے شہرجے پور کے اسٹیڈیم میں جنرل  ضیاء الحق خود پہنچے اور میچ دیکھا۔ اس موقع پر عالمی میڈیا ان کی مسکراہٹ کو فوکس کرتا رہا ۔ پاکستانی صدر نے میچ دیکھنے کے بعد اجمیر میں خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پر حاضری دی ۔ اس واقعہ کے بعد دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے بادل ختم ہوگئے اورحالات کسی حد تک معمول پر آگئے۔ جے پور کے اس اسٹیڈیم میں پاک بھارت کے درمیان ہونے والا میچ تو ڈرا ہو گیا لیکن دونوں ممالک کے درمیان امن کا میچ پاکستانی صدر نے جیت لیا ۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اس وقت کرکٹ ٹیم کی سربراہی کر رہے تھے اور انہوں نے دبائو اور کشیدگی کے اس ماحول کے باوجود اپنی ٹیم کو نہ صرف اکٹھا رکھا بلکہ انہیں میدان میں بھی پرسکون انداز میں اسی جذبے اور جوش کے ساتھ کھلایا جو عام دنوں میں ہوتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ دونوں ممالک کے ساتھ ساتھ عالمی میڈیا پر بھی دونوں شخصیا ت کا ذکر نمایاں انداز میں ہو رہا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب دنیا نے ڈپلومیسی میں اتنی ترقی نہیں کی تھی جیسی کے آج کے دور میں ہے ۔ 
موجودہ حالات کو دیکھا جائے تو افغانستان کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے جنوبی ایشیا کا خطہ ایک غیر یقینی صورتحال سے گزر رہا ہے تاہم پاکستان ان حالات میں سب سے ذیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے ۔امریکہ نے گزشتہ سال افغان طالبان سے انخلاء کا معاہدہ کیا تو پاکستان وہ پہلا ملک تھا جس نے بہت واضح موقف اختیار کیا تھا کہ جب تک افغانستان میں کوئی سیاسی حل نہیں نکال لیا جاتا امریکہ کو ایسے نہیں جانا چاہیے اور ماضٰ کی طرح طالبان کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے لیکن امریکہ نے جس تیزی سے انخلاء کیا اور اس سے بھی تیزی کے ساتھ کے ساتھ جس طرح طالبان نے افغانستان کے شہروں پر اپنا کنٹرول مکمل کیا وہ دنیا کے لیے حیران تھا ۔ ایسی صورت میں اس ملک کے لیے یہ معاملہ انتہائی حساس ہوجاتا ہے جس کی ایک طویل ترین سرحد افغانستان کے ساتھ لگتی ہو ۔ پاکستان نے نہ صرف 
افغانستان میں ایک سیاسی استحکام لانے کے لیے طالبان سمیت دیگر گروپوں کو ایک میز پر لانے کی کوشش کی بلکہ عالمی اداروں کی افواج کو افغانستان سے محفوظ نکالنے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں ۔ چنانچہ نیٹو اتحادمیں شامل فوجی اور دیگر عالمی اداروں کے اہم افراد کے لیے  وفاقی دارالحکومت میںسیکورٹی اور رہائش کے لیے ایمرجنسی اقدامات کیے۔ پاکستان سے محفوظ اپنے اپنے وطن کے لیے روانگی تک اسلام آباد ایک خاص قسم کے سیکورٹی حصار میں رہا ۔ تاہم ان سب کے باوجود امریکہ کا اسٹریٹجک پارٹنر اور خطے میں پاکستان کے حلیف بھارت کی جانب سے مسلسل پاکستان کے کردار پر سوال اٹھائے جارہے ہیں ۔ اس کی واحد وجہ افغانستان سے بھارتی مفادات ( جو کہ سراسر پاکستان کے خلاف دہشت گردی اور عدم استحکام سے دوچار کرنے پر مشتمل تھے) کا خاتمہ ہے جس کے باعث اس کا دیرینہ اکھنڈ بھارت کا خواب بری طرح چکنا چور ہو چکا ہے ۔ دوسری طرف امریکہ کو بھی پاکستان سے یہی شکایت رہی ہے کہ نیٹو اتحاد اور امریکی افواج کی افغانستان میں ناکامی کی بڑی وجہ پاکستان ہے ۔اگرچہ یہ وجہ تو بظاہر پیش کی جاتی رہی ہے تاہم اصل وجہ یہ ہے کہ خطے میں پاکستان ، چین ، روس اور دیگر علاقائی ممالک کا کردار ذیادہ بڑھ گیا ہے جس پر امریکہ کافی پریشان ہے دوسری جانب بھارت کے بھی کچھ ایسے ہی تحفظات ہیں ۔ ان حالات میں پاکستانی وزیراعظم کی جانب سے امریکی مفادات کے تحفظ سے یکسر انکار امریکی حکام کے لیے کافی پریشان کن تھا مغربی ذرائع ابلاغ میں جس طرح وزیراعظم کھل کر امریکی مفادات کے خلاف بیان بازی کررہے تھے اس سے امریکہ کے لیے لازم تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کو قابو کرنے کے کوشش کرے ۔ 
ان سارے حالات کے تناظر میں گر آپ نیوزی لینڈ ٹیم کے دورہ کو یکطرفہ طور پر ختم کرنے کے فیصلے پر غور کریں تو ساری کڑیاں آپس میں مل جاتی ہیں تاہم ماضی میں شاندار کرکٹ ڈپلومیسی کے استعمال نے دوحریفوں درمیان جنگ کا امکان ختم کروا دیا لیکن دور جدید میں اسی کرکٹ ڈپلومیسی کو استعمال کرتے ہوئے نیوزی لینڈ کی جانب سے شرمناک قدم سامنے آیاکہ میچ کے شروع ہونے سے کچھ دیر 
پہلے یکطرفہ انٹیلی جنس اطلاعات کو بنیاد بنا کر اپنا دورہ منسوخ کرکے دنیا بھر کے کرکٹ شائقین کومایوس کیا۔ یقینا تاریخ میں یہ شرمناک کردار رقم ہو چکا ہے اور اسے کسی صورت بھی بھلایا نہیں جا سکتا ۔ نیوزی لینڈ کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ انہیں پانچ ممالک کی خفیہ انٹیلی جنس اتحاد کی جانب سے خبر دی گئی تھی کہ اسٹیڈیم سے باہر ان کی ٹیم پر حملہ کیا جا سکتا ہے ۔ یہ اتحاد جسے ’’پانچ آنکھیں ‘‘ کہاجاتا ہے ،امریکہ ، کینیڈا ، نیوزی لینڈ برطانیہ اور آسٹریلیا پر مشتمل ہے ۔ 1941میں امریکہ اور برطانیہ نے عالمی سطح انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے کے لیے ایک اتحاد کے قیام پر بات چیت شروع کی ۔ 1946میں دونوں ممالک کے درمیان ایک معاہدہ ہوا اور پھر 1948میں اس میں کینیڈا کو شامل کیا گیا جبکہ 1956 میں آسٹیریلیا اور نیوزی لینڈ بھی شام ہو گئے ۔ سردجنگ کے دوران یہ اتحاد مسلسل کام کرتا رہا اور اس میں دیگر ممالک کو بھی شامل کرنے کی کوششیں جاری رہیں تاہم سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد اس اتحاد کے تزویراتی مقاصد بھی تبدیل ہوگئے ۔
 

ای پیپر دی نیشن