رلایا بھی رول بھی دیا 


 2018  میں قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں شرکت کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری  ایوان سے باہر آئے تو صحافی ان کے منتظر تھے اورسوالات کرنا شروع ہوگئے صدر زرداری نے صحافیوں سے کہا بیٹھ کر بات کرتے ہیں  ، مجھے حکم دیا کہ کیفے ٹیریا میں چائے کا اہتمام کریں مجھے دوستوں سے تفصلی بات کرنی ہے سب صحافی کیفے ٹیریا میں آگئے ،گفتگو کی شروعات ہوئی تو ایک صحافی نے سوال کیا ،،تبدیلی آ گئی ہے کیا کہیں گے آپ ،،  زرداری صاحب نے مسکراتے ہوئیجواب دیا اس جواب میں سوال بھی تھا کہ خان صاحب کو لائے تو ہیں مگر یہ کریگا کیا؟ اب جب خان صاحب کو اقتدار میں آئے تین سال ہوئے تو خان صاحب نے فرمایا ابھی تو میں سیکھ رہا ہوں ، ویسے آپس کی بات ہے کہ خان صاحب کو گذشتہ تین سال کے اقتدار میں سوائے دکھڑوں کے ملا ہی کیا ہے ؟ یہ بھی ایک غنیمت ہے کہ نیب ان کے مخالفین کو جیل بھیج کر ان کی دل جوئی کرتا رہا مگر خان صاحب کے دکھڑے کے ٹو کے پہاڑ سے بھی ذیادہ بلند تھے ، اللہ پاک غرق کرے ۔پلید مودی کو ان کی دھوتی کو آگ لگے جس نے وزیراعظم بننے کے بعد ہمارے معصوم خان صاحب کا فون سننے کو بھی گوارہ نہیں کیا حالانکہ خان صاحب ان کو اقتدار میں لانے کیلئے چلے کاٹتے رہے ، بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو عزت و وقار اور ریاست کے سربراہ جیسا پروٹوکول دیکر رخصت کیا اس امیدپر کہ مودی فون کرکے شکریہ ادا کریگا مگر اس احسان فراموش کو فون کرنے کی زحمت ہی نہیں ہوئی ،یہاں تک کہ مودی نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنایا ، حزب اختلاف کی تمام پارٹیاں مودی کو سبق سکھانے کیلئے وزیراعظم خان کی غیر مشروط حمایت کی مگر خان صاحب نے اپوزیشن کی حمایت کو نہ صرف ٹھوکر ماری بلکہ صدر آصف علی زرداری کی بہن ادی فریال کو ہسپتال کے بستر بیماری سے اٹھاکر عید کی رات جیل بھیج دیا اور میان نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز شریف صاحبہ کو بھی جیل بھیج دیا ، سکولوں کے محصوم بچوں کئی گھنٹے دھوپ میں سڑنے کی سزا کے باوجود مودی کو شرم نہیں آئی کہ ایک کال کیلئے بے قرار خان صاحب کو کال ہی کرتے کیا ایک فون کال کرنے سے مودی کو کورونا ہو جاتا ؟ خان صاحب کو مودی کی طرف سے فون نہ آنے کا روگ ختم ہی نہیں ہوا تھا کہ جو بائیڈن امریکہ کے صدر بن گئے انہوں بھی فون تک نہیں کیا ہے اب یہ آپ ہی بتائیں کہ ایسے ناقابل برداشت دکھڑوں کیلئے اکیلی جان خان صاحب کے پاس وقت ہی کہاں تھا کہ ملکی معاملات پر توجھ دیتے ، معاف کیجئے گا خان صاحب کون سے عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آئے تھے کہ ان فضول باتوں پروقت برباد کرکے کہ آٹے ،چینی ، گھی ،سبزیوں، دالوں کی قیمتوں پر اپنا وقت ضائع کرتے ، اگر ادویات مہنگی اور غریبوں کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں تو کیا خان صاحب نے لوگوں سے کہا تھا کہ خطرناک امراض کو پالیں ، پاکستانی جاہل ہیں ڈالر کی قیمت بڑھتی ہے تو اسے اپنی زندگی سے نکال دیں  پٹرول کے نرخ بڑھتے ہیں تو کیا خان صاحب نے انہیں کہا ہے کہ پٹرول خریدیں  ، برائے مہربانی خان صاحب کو یہ طعنہ نہ دیں انہوں  نے ایک  کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا تو خان صاحب نے بابر اعوان، شہباز گل ،تابش ، ثانیہ نشتر ،شوکت تریں سمیت ہر وزارت میں اربوں روپے کے ثمرات لینے والوں کو نوکری تو دیدی ہے ۔ رہی بات دھنگ کے کپڑے نہ ہہننے اور بات  بات پر حق جتلانے والے لوگوں کی تو بھائی یہ بھٹو کے بعد اب بلاول بھٹو زرداری کے لاڈلے ہیں وہ جانے یا بلاول بھٹو جانے ۔ ہاں خان صاحب نے سب کو رلانے کی بات کی تھی اگر کوئی مہنگائی، بیروزگاری اور معاشی بدحالی کی وجہہ سے رو رہا ہے تو رونے دیں انہیں ہاں جو خان صاحب کو لائے تھے تو وہ پیزا کھا رہے ہیں وہ تو  نا امید نہیں ہوئے ، اب جاہلوں کو کون سمجھائے کہ خان صاحب نے سونامی لانے کی بات کی مجھے بتائیں سونامی ترقی کی علامت ہے یا تباہی کی جن ممالک میں سونامی آئی ہے ان علاقوں کے لوگ بتا سکتے ہیں کہ سونامی نے کیسی تباہی کی تھی ، سٹیل ملز کو تالے لگ گئے ، پی آئی اے دنیا میں بدنام ہوئی ، بیرون ملک کام کرنے والے لاکھوں لوگ ڈی پورٹ ہوکر وطن واپس آئے ،میڈیا سے تعلق رکھنے والے لاکھوں مزدور بیروزگار ہوئے ،  تجاوزات کی آڑ میں لاکھوں جھوپڑیاں اور دو مرلے کے مکان مسمار ہوئی لاکھوں محنت کشوں کے کھوکھے ختم کر دیئے گئے ، حالہی میں 16 ہزار سے زیادہ سرکاری ملازمین کو بیروزگار کرکے ان کے زیر کفالت خاندانوں کو بھوک کی تپتی بٹھی میں جھونک دیا گیا ان کے بچوں کو تعلیم کے حق سے محروم کیا گیا ، ملازمین کی برطرفی کے بعد ان کا اور ان کے والدین حکومتی خرچے  پر علاج کی سہولت سے محروم ہو چکے ہیں یہ سونامی نہیں تو اور کیا ؟ ان بچارے ملازمین کی برطرفی پر جتنی بھی تاویلیں بیان کی جائیں منافقت ہے اصل وجہہ یہ ہے ان سرکاری ملازمین کو محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے باعزت روزگار دیا تھا وہ کوئی مراعات یافتہ خاندانوں سے تعلق نہیں رکھتے مزدوروں اور محنت کشوں کے بچے ہیں ،  سید یوسف رضا گیلانی نے تو بحال جج صاحبان کو بھی کیا تھا ، ابھی وزیراعظم گیلانی نے ابھی وزیراعظم کا حلف بھی نہیں لیا تھا تو انہوں نے قید کیئے گئے جج صاحبان کی آزادی کا حکم دیا ،پانچ منٹ کے اندر ججز کالونی کی طرف جانے والی سڑکوں سے آہنی بلاک اور خاردار تاروں کا صفایہ ہوگیا تھا۔ ابھی کل کی بات ہے وزیراعظم عمران خان کے معاون برائے پاک چائنہ راہداری نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں اقرار کیا کہ چین ناراض ہے کیونکہ گذشتہ تین سال سے اس پر کوئی کام نہیں ہوا ۔ہم نے پاک ایران گیس پائپ لائن کو بلاک کرکے ختم کردیا ہے ، میں یہ سوال قارئین کے انصاف پر چھوڑتا ہوں کہ اس منصوبے کو ختم کرکے کس سے انتقام لیا گیا  سابق صدر زرداری سے یا پاکستان سے ؟ آج ڈالر نے روپے سے روح نکال دی ہے ، عالمی مالیاتی اداروں سے چوری چھپے قرضے لیئے جا رہے ہیں،  قرضے بڑہ چکے ہیں، ملک کی معیشت کا نیب نے گردن دبوچ کر رکھا ہے مہنگائی بیروزگاری کے ذریعے اگائے جانے والے  معاشی بدحالی کے سونامی فصل سے کانٹے نکل چکے ہیں ، ہر طرف چیخ و پکار ہے خان تم رلایا بھی ہے رول بھی دیا ہے 

ای پیپر دی نیشن