قلندر دوراں حضرت رحمت اللہ بابا دھنکہ شریف

 سہ روزہ عرس مبارک 24 ستمبر سے مانسہرہ میں شروع ہوگا ۔اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے صحائف مقدسہ کا نزول فرمایا اور اس الہامی پیغام کو سمجھانے، سکھانے اور عملی نمونہ بنا کر پیش کرنے کے لئے اپنے مقرب بندوں کو منتخب فرمایا اور ان کو نبوت کے منصب پر سرفراز فرمایا۔ ان انبیا ء کرام نے رب تعالیٰ کا پیغام مخلوق تک پہنچایا اور یہ سلسلہ نبی آخر الزماںؐ تک پہنچا یا۔اختتام سلسلہ نبوت کے بعد، تربیت امت کی ذمہ داری اولیاء اللہ اور صلحاء امت پر آئی۔ گوکہ تربیت کا جو سلسلہ نبوت کی شکل میں اختتام پزیر ہوا تھا اس کو جاری رکھنے کے لئے رب تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کو چن لیا۔ یہ اہل اللہ، اب دین مبین کی ترویج و اشاعت کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں، اور تا قیامت نبھاتے رہیں گے۔ ان ہی ذمہ داریوں کو لیکر 1930ء میں جسگراں مانسہرہ میں ایک ولی کامل کی ولادت ہوئی جن کا نام’’رحمت اللہ‘‘ رکھا گیا۔  والد حضرت محمد اکبر کا تعلق لساں نواب کے زمیندار تنولی قبیلہ سے تھا۔  رحمت اللہ کا اوائل عمری سے ہی رجحان عبادت اور مخلوق خدا کی خدمت کی طرف تھا۔ والد کی وفات کے بعد آپ نے اپنی والدہ ماجدہ کی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا۔ انہی کی دعاؤں کا ثمر تھا کہ وہ ولی کامل اور درویش خدا مست کے طور پر جانے جانے لگے۔ والدہ محترمہ کی دعا تھی کہ ’’بیٹا، آپ ایک ایسا پھول ہو، جس کی خوشبو چاردانگ عالم میں پھیلے گی‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ جلد ہی آپ قلندرِ دوراں اور مخدوم زماں جیسے القابات سے موسوم ہونے لگے۔ حضرت رحمت اللہ بابا جی سرکار کو ’’دھنکے والی سرکار‘‘ بھی کہا جاتا ہے اورآپ نے اسی نام سے شہرت پائی۔ قبلہ بابا جی نے مہاجرین کی آبادکاری میں ایک نوجوان کی حیثیت سے حتی المقدور خدمات سرانجام دیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ آپ نے داتادربار لاہور میں روزانہ حاضری کو اپنا معمول بنائے رکھا۔ لاہور میں واقع حضرت میاں وڈا صاحب کے درس میں باقاعدہ دینی اور قرآنی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ کچھ عرصہ ملازمت کی غرض سے کراچی میں قیام کے دوران حضرت عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر حاضری دے کر روحانی فیضان بھی حاصل کیا۔
آپ والدہ ماجدہ کی علالت کے باعث واپس جسگراں تشریف لے آئے۔ جہاں حضرت بابا جیؒ نے   عوامی فلاح و بہبود میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔حضرت بابا جی رحمت اللہ سرکار نے آنے والے کسی بھی سائل کو کبھی مایوس نہ لوٹایا۔ جو کوئی بھی اخلاص سے آپ کے پاس حاضر ہوتا، آپ اْس کی حاجت روائی کرتے۔ اپنے مرشدکی طرف سے حکم  کے بعد بابا جی 1967ء میں دھنکہ تشریف لے آئے۔ اور اسی مقام کو اپنا مسکن بنایا۔ یہاں سے آپ نے دھنکے والی سرکار کے نام سے شہرت پائی۔ آپ نے دھنکہ گاؤں سے ملحق ایک پہاڑی کی چوٹی پر اپنا مسکن بنایا اور پھر اسی پر مستقل قیام کیا۔ لگ بھگ چالیس سال کا طویل عرصہ ایک پتھر پر بیٹھ کر مرجع خلائق بنے رہے۔  اپنے ارادت مندوں کے لیے مرید بننے کے لیے وہ چارباتوں پر عمل کرنے کاحکم دیتے۔ نماز روزے کی پابندی کرو، نیک عمل کرو، جھوٹ مت بولو اور والدین اور بڑے بوڑھوں کا احترام کرو۔ آپ کے عقیدت مندوں میں بڑے بڑے حکام اور اعمال حکومت بھی شامل تھے اور عام لوگ بھی۔۔ نواب زادہ صلاح الدین سعید کے والد،ریاست تناول کے نواب زادہ سعید خان اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کو آپؒ سے خاص عقیدت تھی۔ انہوں نے متعدد مرتبہ بابا جی کو اپنے علاقے میں آنے کی دعوت دی۔ اسی طرح پنجاب سے کئی بڑے زمینداروں، خاص طور پر سرگودھا کے رانجھا اور پاکپتن کے مانیکا خاندان نے آپؒ کو اپنے علاقوں میں رہائش پذیر ہونے بلکہ زمین و جائیداد تک کی پیشکش کی لیکن آپؒ نے ایک لمحے کے لئے بھی اپنے مستقر کو چھوڑنا بے وفائی گردانا۔ آپ نے اپنے پتھر کے چبوترے کو ہی اپنی قیام گاہ بنائے رکھا۔ بے نیازی ایسی تھی کہ آپ کبھی کسی کے جاہ وحشمت سے مرعوب نہ ہوئے اور نہ ہی کسی کے مال و زر کی وجہ سے اْس کی تعظیم کی۔ ہمیشہ سب سے یکساں سلوک کیا ۔ دھنکہ شریف آمد کے ساتھ ہی آپ نے وہاں ایک مسجد کی بنیاد رکھوائی، جو اب ایک وسیع و عریض جامع مسجد میں تبدیل ہو چکی ہے۔ مسجد کے ساتھ ملحقہ ایک اسلامک کمپلیکس بھی تعمیر کیا گیا ہے جہاں بچوں اور بچیوں کی الگ الگ تعلیم و تربیت کی ذمہ داریاں، ان کے فرزند ارجمند اور پوتے آج بھی احسن طریقے سے نبھارہے ہیں۔ مخلوق خدا کی دین سے رغبت اور تعلیم و تربیت کے ساتھ اْن کے لئے لنگر کا خصوصی اہتمام کرنا بھی مردان خدا کا شیوا رہا ہے حضرت بابا جی سرکار ؒ نے اپنی اس حیاتِ مستعار کو مخلوق خدا کے لئے وقف کیے رکھا اور شب و روز فقط اللہ کی خوشنودی کے طلبگار رہے۔ زندگی کے آخری دو تین دنوں میں آپ کو ہلکا بخار آیا۔ اور 14 صفرالمظفر، 21فروری2008ء بروز جمعرات آپ کو وصال حق کا پیغام آگیا۔ چہرے پر طمانیت کے آثار نمایاں تھے. رخِ مبارک نور سے جگمگا رہا تھا۔ آپ نے اپنے صاحبزادے، حضرت صاحبزادہ عبد الستار کو پاس بلایا اور فرمایا ’’ہماری ڈیوٹی ختم ہو چکی اور آپ کی ڈیوٹی شروع ہوگئی‘‘حضرت باباجی رحمت اللہ کا سہ روزہ عرس مبارک ہر سال ماہ صفرالمظفرکی 14 تاریخ کے ساتھ آنے والے جمعہ، ہفتہ، اتوار کو منعقد ہوتا ہے۔ اس سال عرس، ستمبر کی 24، 25 اور 26 تاریخ کو جمعہ، ہفتہ اور اتوار کے دن منعقد کیا جا رہا ہے۔ پچھلے سال کی طرح اس مرتبہ بھی صاحبزادہ پیر عبدالستار نے بابا جی کے مریدین اور زائرین کو خاص طور پر تنبیہ کی ہے کہ کرونا وبا کی وجہ سے وہ ماسک پہن کر آئیں اور سماجی فاصلے کو برقرار رکھیں۔ عرس کا باقاعدہ آغاز نماز جمعہ کے بعد ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...